02 نومبر ، 2017
یانگون: میانمار کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی نے ملک کی شورش زدہ شمالی ریاست رخائن کا پہلا دورہ کیا، جہاں سے حالیہ دنوں میں فوج کے کریک ڈاؤن کے باعث ہزاروں روہنگیا مسلمان جان بچا کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکومتی ترجمان زو ہتے نے بتایا کہ 'اسٹیٹ کونسلر آنگ سان سوچی ایک روزہ دورے کے سلسلے میں فی الحال (رخائن کے علاقے) ستوے میں ہیں اور وہ مونگ ڈو اور بیتھوڈوانگ بھی جائیں گی'۔
واضح رہے کہ رخائن کے مذکورہ علاقوں میں کشیدگی عروج پر تھی، تاہم ترجمان نے آنگ سان سوچی کے دورے سے متعلق مزید تفصیلات نہیں بتائیں، جو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے رخائن کا ان کا پہلا دورہ ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا سوچی روہنگیا مسلمانوں کے ان دیہاتوں کا بھی دورہ کریں گی، جنہیں میانمار فوج کی جانب سے نذر آتش کردیا گیا تھا اور جس میں مبینہ طور پر رخائن کے مقامی بدھ متوں کا ہاتھ بھی شامل تھا۔
اور نہ ہی اس بارے میں کچھ بتایا گیا کہ انہیں رخائن میں خوف اور بھوک و افلاس کے سائے میں مقیم بچے کھچے روہنگیا مسلمانوں سے بھی ملوایا جائے گا نہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کی بدھ مت اکثریتی آبادی کی جانب سے نفرت کا سامنا ہے، جنہیں میانمار میں غیر قانونی طور پر مقیم 'بنگالی' پناہ گزین تصور کیا جاتا ہے۔
میانمار کی ریاست رخائن میں فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پر تشدد واقعات پر عالمی سطح پر نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق آنگ سان سوچی نے فوج پر تنقید نہ کرنے کی راہ اپنائی، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اس طرح ایک ایسے ادارے سے ٹکراؤ جیسی صورتحال پیدا ہوگی، جو ملک کے سیکیورٹی سے متعلق معاملات دیکھتا ہے۔
دوسری جانب سوچی رخائن کی تعمیر نو اور روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش سے واپسی کے لیے قائم کی گئی ایک کمیٹی کی سربراہ بھی ہیں، جس نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے دوبارہ داخلے کے لیے سخت شرائط عائد کر رکھی ہیں۔
اس حوالے سے حکومتی ترجمان زو ہٹے نے بنگلہ دیش پر روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کے عمل میں تاخیر کا الزام عائد کیا۔
ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈھاکا کو اُن افراد کی سرکاری فہرست بھیجنی ہے جو رواں برس 25 اگست کے بعد سے میانمار سے نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش گئے۔
بنگلہ دیش میں پناہ گزین روہنگیا مسلمان انتہائی ابتر حالات میں رہنے پر مقیم ہیں، جبکہ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے گروپس کے مطابق مہاجرین کیمپوں میں کئی طرح کی بیماریاں پھوٹنے کے بھی خدشات ہیں۔