پاکستان
Time 04 دسمبر ، 2017

عوام کے پاس جاکر دعوے کرنیوالے پینے کا پانی نہیں دے سکتے، چیف جسٹس

کراچی: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہےکہ  جو عوام کے پاس جاکر کہتے ہیں ہم یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے  یہ لوگ صرف دعوے کرتے ہیں اور عوام کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکتے۔

سپریم کورٹ نے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب سے متعلق کیس کے سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کو 6 دسمبر کو طلب کرلیا۔

کراچی کو صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب سے متعلق درخواست کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری ہے۔

دوران سماعت درخواست گزار شہاب اوست ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ شہریوں کو بنا فلٹر کیے پینے کا پانی فراہم کیا جارہا ہے، کراچی کا 80، حیدرآباد 85، لاڑکانہ 88 اور شکار پور کا 78 فیصد پینے کا پانی آلودہ ہے، سندھ کے دریاؤں میں اسپتالوں، صنعتوں اور میونسپلٹی کا ویسٹ ڈالا جارہا ہے، سندھ کے 29 ڈسٹرکٹ میں لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔

ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمےداری ادا کرے، چیف جسٹس پاکستان

درخواست گزار کے دلائل پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ زمین پر دو بڑی نعمتیں ہوا اور پانی ہیں جس کے بغیر زندگی نہیں، ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمےداری ادا کرے، ہم نے ہوا اور پانی جیسی نعمتوں میں خلل پیدا کر دیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سندھ ہو یا پنجاب، فیکٹریوں کی آلودگی سے زندگی متاثر ہو رہی ہے، ہوا کی آلودگی کے باعث کینسر جیسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، پانی اور ہوا کی آلودگی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، اس معاملے پر اعلیٰ سےاعلیٰ افسر کو بلانا پڑا تو بلائیں گے، حکومت ذمےداری میں ناکام ہو تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’مجھے یہ بتائیں سندھ کے منصوبوں پر کتنے فنڈز جاری ہوئے، ذمے داری کسی سیکرٹری پر نہیں چیف ایگزیکٹو پر عائد کریں گے‘۔

عوام کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکتے، جسٹس میاں ثاقب نثار

جسٹس میاں ثاقب نثار کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ہم بھی بغیر فلٹر کیے پانی پی کر بڑے ہوئے لیکن اس وقت کاپانی مفید تھا، جن کا کام اسے درست کرنا ہے وہ کیوں نہیں دیکھتے؟ جو عوام کے پاس جاکر کہتے ہیں ہم یہ کردیں گے، وہ کردیں گے انہیں یہ نظر نہیں آتا، یہ لوگ صرف دعوے کرتے ہیں، عوام کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکتے، عوام کے مسائل حل کرنے والا بھی کوئی ہے یا نہیں۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں 80 لاکھ شہری ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں، سندھ کے 6 اضلاع کے لیے نساسک نام سے ادارہ قائم کیا گیا، نساسک میں 800 سیاسی بھرتیاں کی گئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نساسک سے قومی خزانے کا مکمل حساب لیں گے، چاہتے ہیں ہمارے بچوں کو پینے کا صاف پانی ملے، چیف سیکرٹری کچھ نہیں کرسکتے تو وزیراعلیٰ کو طلب کرلیتے ہیں، وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کے کرتا دھرتا بھی آجائیں۔

’منتخب نمائندے عوام کے لیے کیا کر رہے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے‘

جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ لاڑکانہ حکمراں جماعت کا گڑھ ہے، وہاں 88 فیصد پانی گندہ فراہم کیا جارہا ہے، منتخب نمائندے عوام کے لیے کیا کر رہے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم کسی کے لیے ضد رکھنے والے نہیں، ہم نہیں چاہتے کہ فیصلہ دیں تو کوئی کہتا پھرے کہ فیصلہ کیوں دیا، ہم ٹھوک بجا کر،سوچ سمجھ کر، سب کو سن کر فیصلہ دیں گے۔

عدالت نے دوران سماعت وزیراعلیٰ سندھ کو کل پیش ہونے کا حکم جاری کیا لیکن ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ کل مصروف ہیں، عدالت وزیراعلیٰ کو بلانے سے پہلے وضاحت سن لے۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کی درخواست پر حکم میں ترمیم کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ اور سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کو 6 دسمبر کو طلب کرلیا۔

چیف جسس پاکستان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے نظر انداز نہیں کر سکتے، وزیراعلیٰ سندھ سے پوچھیں گے ،وہ کیا اقدامات کررہے ہیں، وزیراعلیٰ یہاں موجود ہوں گے تو مسائل کی حل کی جانب بڑھیں گے، وزیراعلیٰ سندھ یہاں آکرسنیں اور مسائل کا حل نکالیں۔

 لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے نظر انداز نہیں کر سکتے، چیف جسٹس

جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کیس سن رہے ہیں، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ’ ایڈووکیٹ جنرل صاحب کیوں پریشان ہیں ہم تو وزیر اعلیٰ سے ملنا چاہتے ہیں‘۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہیں خاموش نہیں رہ سکتے، پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو عدالت حکم دے گی۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے محمود آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ کی زمین غیرقانونی الاٹ کی جس پر عدالت نے کہا کہ مصطفی کمال عدالت کو بتائیں 50 ایکڑ اراضی کس سے پوچھ کر دی، یہ بھی بتائیں یہ کون سے بے گھر لوگ تھے؟ یہ زمین کب دی اور کسے دی گئی۔

 کراچی اور پاکستان کے مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، چیف جسٹس

دوران سماعت شہر میں کثیر المنزلہ عمارتوں سے متعلق ایک درخواست کی بھی سماعت ہوئی جس دوران ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں کثیر المنزلہ عمارت بنالیتے ہیں پینے کا پانی کہاں ہے، ریاست کا کام لائنوں کے ذریعے شہریوں کو پانی دینا ہے، بلڈرز کو نہیں، ہم عوام کے جانوں کا تحفظ کریں گے کسی بلڈرز کا نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ واٹر بم کی صورت اختیار کررہا ہے، رفاعی پلاٹوں پر قبضے اور پانی نہ ملنے کے باعث لوگ دوسرے شہروں پر جارہے ہیں، کراچی کی صورتحال دیکھ کر بہت دکھ ہوا، کوئی مرغیوں کا پنجرا بھی بناتا ہے تو دانا پانی کا خیال رکھا جاتا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وزیراعلیٰ سے پوچھیں گے کہ کراچی والے پانی کو ترس رہے ہیں کم نئی عمارتیں بنانے کی اجازت کیسے دے دیں، کثیر المنزلہ عمارتوں کی بجائے نئے شہر آباد کیوں نہیں کیے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اور پاکستان کے مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کردی۔

مزید خبریں :