سانحہ 71ء سےکوئی سبق نہیں سیکھا گیا

عظیم قومیں جب اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں تو ترقی کرتی ہیں۔ لیکن ہم نے تو حادثات سے بھی نہیں سیکھا اور وہ بھی ملک کا سب سےبڑا حادثہ یعنی 1971 میں مشرقی پاکستان کا الگ ہونا جو اب بنگلہ دیش ہے۔

صرف ایک ہی سبق سیکھا گیا ہے کہ ‘‘کچھ نہیں سیکھنا۔’’ مشرقی پاکستان کا سانحہ بطور ریاست ہماری قومی ناکامی تھی۔ نہ ہی ہم نے ’اکثریت’ کو مانا اور نہ اکثریت کے مینڈیٹ کو۔

اگر 1948، 1956، 1960اور 1971 میں ہم نے اکثریتی صوبے کااحترام کیاہوتا تو مشرقی پاکستان کا سانحہ نہ ہوتا۔ اُن کے دکھ فرضی نہیں تھے بلکہ حقیقت پر مبنی تھے۔ لیکن ہماری سول اور ملٹری بیوروکریسی کا مائنڈ سیٹ اکثریت کو ان کا ‘لازمی حصہ’ دینے کوتیار نہیں تھا، نہ وسائل میں اور نہ ہی سیاست میں۔

گزشتہ 46 سال میں ریاست کے چار ستون اپنے ذمےکا کردار ادا کرنے اورغلطیوں سے سبق سیکھنےکے قابل نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس ہم اسی طرح کی غلطیاں دہرا رہےہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ’بیدار’ ہوجائیں۔

1971 کی غلطیوں سے ہمیں مندرجہ ذیل سبق سیکھنے چاہئےتھے لیکن 1947 سے1971 کے درمیان ہم نے غلطیوں کو دھرایا۔

(1) اکثریت اور اکثریت کی رائے کا احترام۔ (2) لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام حتیٰ کہ یہ کسی کی خواہشات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ (3) حقیقی معنوں میں آئین کا احترام۔ (4) قانونی کی حکمرانی کا احترام۔ (5) پارلیمنٹ کا احترام۔

(6) جمہوری اقدار کا احترام۔ (7) ریاست کے تمام ستونوں کو ذمہ داری سےکام کرنا چاہیئے۔ (9) پریس یا میڈیا کو لوگوں تک غلط معلومات نہیں پہنچانی چاہیئےاور نہ اُس طرح کسی کے ہاتھوں میں کھیلنا چاہیئے جس طرح ہم نے 1971 میں اس کا غیر ذمہ دارانہ استعمال دیکھا۔ (10) جب بات سیاسی بحران یا تنازع کی ہوتوعسکری حل کی بجائے سیاسی حل تلاش کرنےچاہیئں۔

لیکن 1971 سے 2017 کے درمیان کیا ہوا۔ دو فوجی حکومتیں، 1977 سے1988 تک اور 1999سے 2007تک۔ درمیان میں سول حکومتیں 1988سے 1990تک، 1993سے 1996 تک اور 1997سے 1999 تک اپنی مدت پوری نہ کرسکیں اور برطرف کردی گئیں، ایسا زیادہ ترغیرسیاسی مداخلت کے باعث ہوا۔ افسوسناک طورپر اس کے باعث پاکستانی معاشرے کی سیاسی اور معاشرتی سمتیں بدسےبدتر ہوگئیں۔

جمہوری نظام تاحال ’ونٹی لیٹر‘ پر ہے۔ عدلیہ بھی ناکام رہی اور2007 میں ججز اور وکلاء کی تحریک کے آغاز تک اس نے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس نے جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے ملٹری اقتدار کو قانونی حیثیت دی۔ دونوں نے آئین کو پامال کیا اور اس میں ترامیم کیں۔

جنھوں نے آرٹیکل VI کی خلاف ورزی کی انھیں کبھی ٹرائل کاسامنا نہیں کرنا پڑا۔ جنرل ضیاء ہوائی جہاز حادثے میں مارےگئے جبکہ مشرف جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔ ان کے دورِاقتدار نے ملک کو نسلی، فرقہ ورانہ ذات برادری نظام میں تقسیم کیا اور جاگیردارانہ نظام کو مضبوط کیا۔

ان کے دورِ اقتدار میں اسلحہ اور منشیات کلچر کوفروغ ملا اور معاشرہ کرپٹ ہوا۔ پارلیمنٹ اور سیاستدان بھی آئین کی حفاظت، اعلیٰ اخلاقی معیار کاقیام اور گُڈ گورننس کااپناکردار ادا کرنےمیں ناکام رہے۔ آمریت کو چیلنج کرنے کی بجائے ایک پارٹی دوسری کو بے دخل کرنے کی سازش کا حصہ بن جاتی تھی۔ انھوں نے کچھ ’فائدے اورعہدے‘ لینےکیلئے ‘فوجی حکومت‘ کوخوش آمدیدکہا۔ جس طرح سے بھی آمروں کو اچھا لگا، قومی جماعتوں اور گروپس میں تقسیم پیدا کرنےکیلئے وہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں میں کھیلتےرہے۔

سیاستدان اور سول حکمران جمہوری ادارے بنانے میں بھی ناکام رہےاور اس کے نتیجے میں ان کا ریکارڈ بطور ’ صاف حکمران‘ بہت خراب رہا۔ لہٰذا 1970 کےانتخابات کےنتیجے میں پہلی منتخب حکومت کےبعد کرپشن سیاسی کلچر کی ’ پہچان’ بن گئی۔ 1972کی اسمبلیاں اور سیاستدانوں کو بہت زیادہ تنقید کاسامنا کرناپڑا اور حتیٰ کہ ذوالفقارعلی بھٹو پراپنے مخالفین اور پریس کو دبانے کے الزامات لگے لیکن اُن پر کرپشن کے الزامات کبھی نہیں لگے۔

اس کے برعکس غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنےوالےلوگ کرپشن میں ملوث رہے اور بعد میں انھیں آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت دےدی۔ مثال کےطورپرریاست کےچوتھےستون پریس کو بھی اپنی غلطیوں سے سیکھنےکی ضرورت ہے۔

1970-71 کے بحران میں اس کا کردار ’مشکوک‘ رہا۔ ‘حقائق’ کی بنیاد پررپورٹنگ کی موت ہوگئی۔ 1970کےانتخابات کےدوران پریس سنسرشپ کاشکار نہیں تھالیکن میڈیا بھی اتنا ہی تقسیم ہوگیا تھا جتنا سیاست مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تقسیم ہوگئی تھی۔

سنسرشپ کانفاذ 1971 میں جنگ کے دوران کیاگیا اور سب سے بڑی اور افسوسناک خبر ’سقوطِ ڈھاکہ‘ کا بلیک آؤٹ کیاگیا اورکچھ قومی اخبارات نے اِسے سنگل یا ڈبل کالم میں رپورٹ کیا۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ 1947 سے جمہوریت جڑیں نہیں پکڑ سکی اور اس کے نتیجے میں ہم اپنی سمت کا تعین نہیں کرسکے۔ جو کچھ 1971میں ہوا وہ غلط سمت کا نتیجہ تھا۔

بطورِ قوم اس وقت مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے کا سانحہ اس کا نتیجہ ہے جوگزشتہ 70 سال میں ہوا، ہمارے پاس بمشکل کوئی سیاسی جماعت ہے جس کے پاس مکمل قومی کردار اور تمام صوبوں میں جڑیں ہوں۔ 1971 کا سبق یہ تھا کہ مینڈیٹ کا احترام اور اُسےقبول کیاجائے۔

جو کچھ 46سال قبل ہوا وہ مجموعی طورپر ہمارے قومی کردار کی ناکامی تھی۔ ہمیں تسلیم کرناچاہیئے کہ ہم نے1970کےانتخابات کےمینڈیٹ کا احترام کیا اور نہ ہی اسےقبول کیا۔ یہ بھی قبول کرناچاہیئے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی موت کے بعد ہم نے اکثریت کی رائےکااحترام نہیں کیا۔ اگر ہم نے 1956سے یہ کیا ہوتا توغالباً 1971 کاسانحہ رونما نہ ہوتا۔

لیکن کسی ایک ادارے کومودرِ الزام ٹھرانا غلط ہوگا۔ سب کو ذمہ داری لینا ہوگی لیکن زیادہ ذمہ داری ریاستی اداروں جیسے اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور انتظامیہ کی ہے۔ اگر ہم نے 1971 کے بحران سے سبق سیکھا ہوتا تو 1977 کاسانحہ نہ ہوتا، جب سیاستدانوں میں انتخابات کا معاہدے طے پاگیاتھا۔ کوئی سبق نہیں سیکھا گیا اور چھ سال بعد ہی مارشل لاء نافذ ہوگیا۔

حتیٰ کہ اگر انتخابات 90 دن کے اندرہوجاتے جیساکہ وعدہ کیاگیاتھا تو پاکستان اب جمہوری راستے پرہوتا۔ اس سے بھی برا تب ہوا جب فوجی آمرنے تمام عالمی تحفظات کو نظرانداز کرتے ہوئےسب سے مقبول رہنما کو پھانسی پرلٹکادیا۔ اس سے بڑا سیاسی سانحہ کیاہوگا جو پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ گزشتہ 70سال میں کیاگیا۔ وہ پارٹی جس نے سمت کا تعین کرناتھا، قائداعظم کی رحلت کے بعد وہ ہی راستہ بھٹک گئی۔

پی ایم ایل میں تقسیم کےبعد کوئی قومی جماعت سامنے نہ آئی اور حتیٰ کہ پی پی پی اور عوامی لیگ جیسی جماعتیں بھی اپنے اپنے صوبوں تک محدود رہیں۔ آج ریاست کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مرکزی سیاسی جماعتوں کی ناکامی سے ’قومی مفاد ‘ کو نقصان پہنچےگا اور منفی سیاست کی راہ ہموار ہوگی۔ یہ وہی ہے جو ہم نے 1985کےبعد دیکھا جب ایک گہری جڑوں والی جماعت کو کچلنےکیلئےانتخابات غیرجماعتی بنیادوں پرہوئے۔ اس کی قیمت ہم آج تک چکارہےہیں۔

قائد کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا سیاست میں آنا قوم کو متحد کرنے کی ایک کوشش تھی اور غالباً ایک قومی سیاسی کردار کو زندہ رکھنے کی آٰخری امید تھی۔ سیاست نسلی اور قوم پرستانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگئی اور بنگال میں عوامی لیگ کی مقبولیت کا نتیجہ نکلا۔ 1970 کے انتخابات کے نتیجے میں سیاست تباہ ہوگئی لیکن نتائج کو نہ ماننے سے اور اکثریت کو اقتدار منتقل نہ کرنے سے پاکستان کا سیاسی بحران سنگین ہوگیا۔

اگر مغربی پاکستان کےلوگوں پر مشتمل ہماری سول اور ملٹری اسٹیبشلمنٹ نے سیاست اور انتخابات میں اکثریت کومان لیاہوتا توپاکستانی سیاست مختلف ہوسکتی تھی۔ 1948سے لفظ ‘جاو’ سے متعصب لوگ واضح تھے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو پر اکثر1971 کے بحران کو مزید سنگین کرنے کا الزام عائد کیاجاتاہے، انھوں نے ’نیاپاکستان‘ تعمیر کیا تھا۔ وہ سیاست میں کچھ عوامی کردار لے کرآئےتھے اور پہلی بار ملک کو متفقہ طورپر 1973کا آئین ملا۔ 1977 کےبحران کے دوران دونوں پی پی پی اور پی این اے عوامی کردارتھے لیکن مارشل لاء نے ایک بار پھر عوامی سیاست میں کچل دیا۔

ایک متنازع مقدمےمیں بھٹوکی پھانسی نے جنرل ضیاءکے اقتدار کو قومی سیاست کی قیمت پرطول دینےمیں مدد کی۔ پی پی پی ملک کی واحد قومی جماعت رہی اور جلد ہی اسٹیبلشمنٹ کواحساس ہوا کہ قومی کردار کے ساتھ ایک اور پارٹی کا خلا موجود ہے۔ اس طرح غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے انتخابات میں منتخب ہونےوالے لوگوں پرمشتمل پی ایم ایل کی تخلیق ہوئی اور مرحوم محمد خان جونیجو کا بطور پارٹی صدر اور وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

1985کےبعد سےسیاست میں قوم پرستانہ اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوئی، اور پی پی پی اور پی ایم ایل جسی جماعتوں پر بھی اس کے اثرات ہوئے۔ سندھ میں شہری اور دیہی تقسیم کےباعث پی پی پی کی سیاست نے ایم کیوایم کی تخلیق اور عروج دیکھا۔ جبکہ عمران خان کا آگےآنا ایک مثبت سیاسی پیشرفت ہے لیکن 2013 میں جو کچھ پی پی پی کے ساتھ ہوا وہی 2018میں پی ایم ایل (ن) کیساتھ ہوگیا، اس پر حیرانی ہوتی ہے کہ آنےوالے وقت میں سیاست کس طرح کی ہوگی۔

اگر اگست 2018میں آئندہ الیکشن ہوتے ہیں تو یہ قومی جماعتوں اور قومی سیاست کیلئےچیلنج ہوگا۔ انتخابات سے فیصلہ ہوگا کہ پاکستانی سیاست کہاں جارہی ہے۔ نظام کو چلنے دیجئیے اور خود ہی بدلنے دیجیئے۔ 

سینئر صحافی مظہر عباس کا تجزیہ 16 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا

مزید خبریں :