بلاگ
Time 16 دسمبر ، 2017

بھولے اور سیانے

تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا—۔فائل فوٹو

یہ بات تو طے ہے کہ ہمارا ملک سیانوں کا ہے، یہ سیانوں کے لیے بنا ہے، سیانے ہی اس کو چلاتے ہیں اور سیانے ہی اس کی سمجھ رکھتے ہیں۔ اس ملک کی رعایا بھولوں کی اکثریت پر مشتمل ہے جنہیں حساس ملکی معاملات اور اہم عدالتی مقدمات کے نتائج کا کچھ علم نہیں ہوتا۔

خیر ریاست میں ان بھولوں کی زیادہ اہمیت بھی نہیں ہے مگر چونکہ بھولے زیادہ اور سیانے کم ہیں اس لیے بھولوں کو بہلانے کے لیے سیانوں کا بیانہ دینا پڑتا ہے وگرنہ سیانے تو سب کچھ پہلے ہی سے جانتے ہیں۔

دو اہم ترین عدالتی فیصلوں سے طے ہو گیا ہے کہ آئندہ سیاسی مقابلے کے لیے دو سیانے عمران خان اور شہباز شریف مدمقابل ہوں گے۔دونوں خوش قسمت ہیں کہ اہل قرار پائے ہیں، اب بھولوں کی اکثریت کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ کس سیانے کا ساتھ دیں گے۔ 

آئیے  لگے ہاتھوں باقی سیانوں کی فہرست بھی دیکھ لیں۔ آصف علی زرداری جیلوں میں رہ رہ کر سیانے ہو چکے ہیں، کسی زمانے میں بھولے تھے تو جیلوں میں رہتے تھے، اب باقی سیانوں کی طرح آزاد زندگی گزارتے ہیں۔ 

جہانگیر ترین کو ہر کوئی سیانا سمجھتا تھا مگر وہ بھی بھولا نکلا، اپنا سب کچھ تحریک انصاف پر لٹاتا رہا مگر اصلی سیانوں کو راضی نہ رکھا اور یوں نااہل ہو کر بھولوں کی صف میں شامل ہو گیا۔

قومی اسمبلی کا اسپیکر ایاز صادق بھی یقیناً بھولا ہے، معصوم ہے، پگلا ہے، دیوانہ ہے۔ حساس قومی معاملات کو نہیں سمجھتا۔ ناتجربہ کار ہے، اقتدار کی غلام گردشوں سے گزرا ضرور ہے مگر وہاں چھپن چھپائی کا کھیل نہیں کھیل سکا۔ ایاز صادق کے خلاف نہ نیب نے ریفرنس بھیجا نہ انہوں نے عدالتوں میں پیشیاں بھگتیں، نہ مارشل لا دور میں جیل کاٹی، نہ چلتی آنسو گیس میں جلوس نکالا، نہ برستے ڈنڈوں میں نعرے لگائے، اسی لیے ایاز صادق بھولا ہے۔ 

خواجہ آصف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سیانے ہو چکے ہیں۔ خواجہ آصف نیب بھگت چکے ہیں اور شاہد خاقان عباسی مارشل لا دور کی جیل کاٹ چکے ہیں اسی لیے تو یہ دونوں سیانے ہو چکے ہیں اور ایاز صادق ابھی 'بھولا' ہے۔

زمانہ قدیم میں جب یونان اور روم میں اشرافیہ کی حکومت ہوتی تھی تو معاشرہ عوام اور اشرافیہ میں بٹا ہوتا تھا۔ عوام کو بھولا اور اشرافیہ کو سیانا سمجھا جاتا تھا۔ 

کئی صدیاں گزر گئیں مگر سیانوں اور بھولوں کی یہ تقسیم آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ سیانے سچ نہیں بولتے، گھسے پٹے بیانیے پر چلتے ہیں اور یوں باقی بھولوں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار سسٹم کے اندر سے ایاز صادق جیسا کوئی بھولا بول اٹھتا ہے تو بھولوں کو پتہ چلتا ہے کہ اندر خانے کوئی کھچڑی پک رہی ہے، وگرنہ بقول شاہد خاقان عباسی یا بقول خواجہ آصف 'نہ کچھ ہوا ہے، نہ کچھ ہو گا، سب کچھ یونہی چلتا رہے گا'۔

اس ملک کے سیانوں کا بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان عطیہ خداوندی ہے، یہ خطہ ہمیں بشارتوں سے ملا ہے، ہمارے بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر ہے، یہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور قائم رہے گا۔ یہ ملک اغیار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے، ہنود اور یہود ہر وقت اس ملک کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ بھارت، امریکہ اور ان کے اتحادی پورا زور لگا رہے ہیں کہ اسے کمزور کر دیں مگر خدا کی مدد شامل حال رہتی ہے اور کوئی بھی اس ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

ایاز صادق تعلیم و تربیت سے تو 'بھولے' نہیں لگتے۔ ایچی سن کالج میں چوہدری نثار علی اور عمران خان جیسے 'سیانوں' کے ساتھ پڑھے اور جنرل ضیاء الحق کے مقرر کردہ وفاقی محتسب سردار اقبال کے داماد ہیں۔ 

اصولی طور پر انہیں سیانا ہونا چاہیے تھا، مگر گڑھی شاہو میں رہتے ہوئے وہ کہیں کیچڑ بھری گلیوں میں کھیلے اور وہاں کہیں کسی مظلوم بچے کی آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر وہ مکمل 'سیانے' نہ بن سکے، اسی وجہ سے ان پر بھولپن کے دورے پڑتے ہیں جس سے ان کے سینے پر سے بوجھ اتر جاتا ہے۔

سیانوں کا پاکستان اور ہے اور بھولوں کا پاکستان اور! سیانے خان صاحب، میاں صاحب، چوہدری صاحب کہلاتے ہیں اور بھولے ننھا تیلی، پپو نائی اور اللہ رکھا مراثی۔ 

بھولے سارا دن پریشان رہتے ہیں، مگر سیانے چین کی نیند سوتے ہیں۔ بھولے کہتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ گر رہی ہے ڈالر چڑھ رہا ہے، سیانے سمجھاتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ گر گئی تو کیا؟ پہلے چڑھی بھی تو تھی معیشت کا حال خراب ہے تو کیا؟ پہلے ٹھیک بھی تو تھا، اب ڈالر چڑھ رہا ہے تو پہلے رکا ہوا بھی تو تھا؟بھولے سوچتے ہیں کہ ڈالر کو نیچے لائیں، پھر ڈار کو واپس لائیں۔ سیانے کہتے ہیں پہلے ڈار کو واپس لایا جائے، پھر ڈالر کو نیچے لانے کا سوچیں گے۔

بھولے سیانے کا یہی کھیل تحریک انصاف میں بھی جاری تھا۔ بھولا جہانگیر ترین یہ سمجھتا تھا کہ عمران خان اور پارٹی کے بڑے بڑے لوگ اس کی بات سنتے اور عمل کرتے ہیں، شاہ محمود قریشی سائیڈ لائن ہو چکا ہے اور اپنے حلقے تک محدود ہے مگر شاہ محمود قریشی اصلی تے وڈے سیانے ہیں، سیانوں کے قریشی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ خاموش بیٹھ کر بھولے جہانگیر ترین کی کارروائیاں دیکھتے رہے اور بالآخر آج پی ٹی آئی کی سیاست کے سیانے شاہ محمود قریشی ٹھہرے ہیں کیونکہ بھولے ترین دھوبی پٹڑا کھا کر گر چکے ہیں۔

قومی سطح پر دیکھیں تو سیانے ہمیشہ کی طرح جیت رہے ہیں اور بھولے ہمیشہ کی طرح ہار رہے ہیں۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ وہ سیانے ہیں، ان کی حکومت نہیں جائے گی ان کو صرف ڈرایا جاتا ہے مگر نااہل ہونے سے ثابت ہوگیا کہ وہ بھولے کے بھولے ہی رہے۔ وہ ان یقین دہانیوں پر یقین کرتے رہے کہ انہیں کچھ نہیں ہوگا مگر بالآخر بھولا ہار کر ہی رہا۔

بھولا ترین ہو یا بھولا ایاز صادق ہو، ان کی قسمت میں صرف ہار ہی ہار ہے۔ اس ملک پر سیانوں نے ہی حکومت کی ہے اور سیانے ہی حکومت چلاتے رہیں گے۔ بھولے رعایا تھے رعایا ہیں اور رعایا ہی رہیں گے۔

کیا کبھی بھولوں کا دور آئے گا؟ آ سکتا ہے اگر کوئی نظریہ پیدا ہو، کوئی نیا جذبہ سامنے آئے، بھولوں کے لیے کوئی نیا خواب ہو۔ بھٹو جیسا کوئی منشور ہو، محمد علی جناح جیسی قیادت ہو، عوامی خدمت کا جذبہ ہو تو شاید بھولوں کی بھی سنی جائے مگر آنے والا دور پھر سے عمرانوں، شہباز شریفوں، شاہ محمود قریشیوں اور ان جیسے سیانوں کا ہے۔ بھولے سوئے ہی رہیں تو بہتر ہے۔


یہ تحریر 16 دسمبر 2017 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔