23 دسمبر ، 2017
کراچی: سیشن جج جنوبی کی عدالت نے شاہ زیب قتل کیس کے مبینہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کی ضمانتیں منظور ہونے کے بعد رہائی کے احکامات جاری کردیئے جس کے بعد شاہ رخ جتوئی کو جناح اسپتال سے رہا کردیا گیا۔
شاہ رخ جتوئی سمیت 2 ملزمان کو جناح اسپتال سے رہا کیا گیا جبکہ دو ملزمان کو جیل سے رہا کیا جائے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزم شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس سماعت کے لئے سیشن جج کے پاس بھیجنے کا حکم دیا تھا جب کہ عدالت نے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات بھی ختم کردی تھیں۔
کراچی کی ضلع جنوبی کی سیشن عدالت نے 19 دسمبر کو کیس کی ازسر نو پہلی سماعت میں صلح نامہ اور کیس کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔
جیونیوز کےمطابق کراچی کی ضلع جنوبی کی سیشن عدالت میں شاہ زیب قتل کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے آغاز پر مقتول شاہ زیب کے والد نے صلح کے حوالے سے حلف نامہ جمع کرایا۔
جب کہ انہوں نے ایک اور حلف نامہ جمع کرایا جس موقف اختیار گیا گیا کہ انہیں ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
مقتول شاہ زیب کے والد نے عدالت کے روبرو بتایا کہ بیٹے کے قتل کے بعد ملزمان کے اہلخانہ سے صلح ہوگئی تھی، گھر والوں کی مرضی سے ملزمان کے اہلخانہ سے صلح کی اور شاہ زیب کے قاتلوں کو اللہ کی رضا کے لیے معاف کیا، اس لیے ملزمان کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔
اس دوران مقتول کے والد اورنگزیب نے ملزمان کی ضمانت پر رہائی اور مقدمہ ختم کرنے کی بھی درخواست دائر کی۔
عدالت نے درخواست ضمانت پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کیس کے مبینہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی، نواب سراج علی تالپور، سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کی ضمانتیں منظور کرلیں۔
عدالت نے چاروں ملزمان کو 5،5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا جو جمع کرانے کے بعد رہائی کے احکامات جاری کردیئے گئے۔
سیشن عدالت نے کیس کے مبینہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی غیر قانونی اسلحہ کیس میں بھی ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی۔
عدالت کی جانب سے ضمانت منظور کیے جانے اور ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد ملزمان کی رہائی کا حکم جاری کردیا گیا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 26 دسمبر تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ 20 سالہ نوجوان شاہ زیب خان کو دسمبر 2012 میں ڈیفنس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوستوں نے معمولی جھگڑے کے بعد مبینہ طور پر گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جون 2013 میں اس مقدمہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج علی تالپور کو سزائے موت اور دیگر ملزمان بشمول گھریلو ملازم غلام مرتضٰی لاشاری اور سجاد علی تالپور کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
تاہم بعد میں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزم شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس سماعت کے لئے دوبارہ سیشن جج کے پاس بھیجنے کا حکم دیا تھا جب کہ عدالت نے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات بھی ختم کردی تھیں۔