سال 2017 نے جہاں قوم کو خوشیوں کی نوید سنائی وہیں اس سال بھی دہشت گردی کے ناسور نے قوم کو گھاؤ بھی لگائے۔
30 دسمبر ، 2017
’آزادی مفت میں نہیں ملتی اس کی قیمت دھرتی کے بیٹے ادا کرتے ہیں‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے یہ الفاظ پاکستان کے ان سپوتوں کے لیے تھے جنہوں نے ارضِ پاک کو اپنے لہو سے سیراب کیا۔
سال 2017 نے جہاں قوم کو خوشیوں کی نوید سنائی وہیں اس سال بھی دہشت گردی نے قوم کو گھاؤ لگائے۔
وطن عزیز میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ قریباً اپنے اختتام پر ہے جس میں ہماری فورسز کے جوانوں نے دہشت گردوں کو دندان شکن جواب دیا اور اس جنگ میں دھرتی کے بیٹوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔
رواں سال جامِ شہادت نوش کرنے والوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں جو شہید ہوکر قوم کی حیات بن گئے۔ ایسے جاں نثاروں کو قوم سلام پیش کرتی ہے۔
13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے فارمامینوفیکچرز اور کیمٹس کے دھرنے کے دوران خودکش دھماکا ہوا جس میں 13 قیمتیں جانیں ضائع ہوئیں۔
دہشت گرد نے اس دھرنے میں موجود پولیس کے اعلیٰ افسر ڈی آئی جی احمد مبین کو نشانہ بنایا اور وہ خودکش حملے میں شہید ہوگئے۔
پنجاب پولیس کے چیف ٹریفک پولیس آفیسر کے عہدے پر کام کرنے والے ڈپٹی انسپکٹر جنرل احمد مبین پاک فوج کے ریٹائرڈ کیپٹن تھے۔
وہ 1973 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے، پاک فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد 1996 میں پولیس سروس جوائن کی اور اے ایس پی کے عہدے پر بھرتی ہوئے۔
شہید احمد مبین پولیس میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔
وہ ڈی پی او قصور، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کوئٹہ، ایس پی ماڈل ٹاؤن لاہور، ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور، ڈی پی او پاک کپتن، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن بلوچستان اور چیف ٹریفک آفیسر لاہور تعینات رہے۔
شہید ڈی آئی جی احمد مبین کا شمار فرض شناس افسران میں ہوتا تھا اور وہ بہترین شہرت کے حامل تھے۔
13 فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے ہونے والے خودکش حملے میں جہاں ڈی آئی جی احمد مبین جیسے افسر شہید ہوئے وہیں ان کے ساتھی ایس ایس پی زاہد گوندل بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنے اور جامِ شہادت نوش کیا۔
ایس ایس پی زاہد گوندل کا شمار بھی اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران میں ہوتا تھا۔
وہ ڈی پی او راجن پور بھی تعینات رہے اور علاقے میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف فوج اور رینجرز کے ساتھ آپریشن کا حصہ رہے۔
شہید ایس ایس پی زاہد گوندل کے والد زرعی ترقیاتی بینک میں جوائنٹ ڈائریکٹر تھے۔
شہد پولیس افسر کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔
15 فروری کو مہمند ایجنسی میں خودکش حملہ ہوا جس میں مجموعی طور پر 5 افراد شہید ہوئے جن میں تین خاصہ دار فورس کے اہلکار بھی شامل تھے۔
خودکش حملہ آور نے پولیٹیکل انتظامیہ کے دفتر میں گھسنے کی کوشش کی تو گیٹ پر موجود اہلکاروں نے اسے روکا جس پر حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور اس کے نتیجے میں تین اہلکار شہید ہوگئے۔
16 فروی کو بلوچستان کے ضلع آواران میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں پاک فوج کے جواں سال افسر کیپٹن طحہٰ شہید ہوگئے۔
تخریب کاری کی اس کارروائی میں کیپٹن طحہٰ کے ساتھ پاک فوج کے دو سپاہی کامران ستی اور مہتر جان نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔
17 فروری کو خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے حملے میں 5 افراد شہید ہوئے جن میں 4 پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کےعلاقے مشن موڑ پر دہشت گردوں نے پولیس موبائل پر فائرنگ کی جس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) رحمت اللہ، سپاہی راشد، نعمان اور ڈرائیور ارشاد شہید ہوگئے۔
6 مارچ کو مہمند ایجنسی میں پاک افغان سرحد کے قریب افغانستان سے دہشت گردوں نے فائرنگ کی جس میں پاک فوج کے 5 اہلکار شہید ہوگئے۔
ان شہدا میں ثناءاللہ، صفدر، الطاف، نیک محمد اور انور شامل تھے۔
14 اپریل کے روز پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کے علاقے بستی دادوانی میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیس آپریشن کیا گیا جو رینجرز، سی ٹی ڈی اور خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے کیا۔
آپریشن کے دوران دہشت گردوں نے اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ دہشت گردوں کے اس حملے پر رینجرز کے جوانوں نے بھرپور جوابی کارروائی کی جس میں 9 دہشتگرد مارے گئے۔
لیکن دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے رینجرز کے 3 جوان شہید ہوگئے۔ ان شہدا میں حوالدار آصف، سپاہی آفتاب اور سپاہی عزیز اللہ شامل تھے۔
23 جون کو کوئٹہ کے علاقے گلستان روڈ پر کار سوار خودکش حملہ آور نے آئی جی کے دفتر کے قریب خودکش حملہ کیا۔
اس حملے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 14 افراد شہید ہوئے جن میں ڈیوٹی پر مامور 7 پولیس اہلکار بھی شہید ہوگئے۔
پولیس کے ان شہدا میں ساجد علی، لعل خان، غنی خان، فیصل خان،غلام شبیر، کاشف اور نعیم شامل تھے۔
10 جولائی کے روز بلوچستان کے ضلع چمن میں پولیس کے ایک اور اعلیٰ افسر کو نشانہ بنایا گیا۔
بوغرہ روڈ پر موٹرسائیکل سوار خودکش حملہ آور نے ڈی پی او قلعہ عبداللہ ساجد مہمند کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ اپنی گاڑی میں سوار تھے۔
حملہ آور نے اپنی موٹرسائیکل پولیس افسر کی گاڑی سے ٹکرائی جس کے نتیجے میں ہونے والے دھماکے میں ڈی پی او ساجد مہمند اور ان کا محافظ شہید ہوگئے۔
شہید پولیس افسر ساجد مہمند 1964 میں پشاور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔
انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا اور 1992 میں پولیس میں بطور ڈی ایس پی شمولیت اختیار کی۔
ساجد مہمند ڈی پی او کرک، شانگلہ، نوشہرہ، ایس پی انویسٹی گیشن، اے آئی جی لاجسٹک برانچ بھی رہے۔ ان کا شمار اچھے اور فرض شناس افسران میں کیا جاتا تھا۔
24 جولائی کے روز دہشت گردوں نے پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں پولیس کو نشانے پر لیا۔
دہشت گردوں نے ارفع کریم ٹاور کے قریب لگے پولیس کے کیمپ کو نشانہ بنایا اور خودکش حملہ کیا۔
پولیس اہلکاروں کا یہ کیمپ سبزی منڈی میں آپریشن کے لیے لگایا گیا تھا لیکن خودکش حملہ آور نے اسے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 26 افراد شہید ہوئے جن میں 9 پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
پولیس کے شہدا میں ایک سب انسپکٹر، اسسٹنٹ سب انسپکٹر ( اے ایس آئی) اور 7 سپاہی شامل تھے۔
9 اگست کے روز خیبرپختونخوا کے علاقے اپر دیر میں آپریشن کے دوران پاک افغان بارڈر کے قریب دہشت گردوں نے پاک فوج کے اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس میں پاک فوج کے جواں سال میجر سلمان علی اور 3 اہلکار بھی شہید ہوگئے۔
اس آپریشن میں پاک فوج کے میجر سلمان علی کے علاوہ حوالدار غلام نذیر، حوالدار اختر اور سپاہی عبدالکریم شامل ہیں۔
شہید میجر سلمان علی انٹیلی جنس ایجنسی میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
13 اگست کو دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع پشین میں پاک فوج کے ٹرک کو نشانہ بنایا۔
خودکش حملہ آور نے پاک فوج کے اہلکاروں کو لے جانے والے ٹرک کو نشانہ بنایا جس میں مجموعی طور پر15 افراد شہید ہوگئے۔
ان شہدا میں پاک فوج کے 8 اہلکار بھی شامل تھے۔
23 ستمبر کے روز پاک فوج کے ایک اور جواں سال افسر نے وطن پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
خیبرایجنسی کے علاقے راجگال میں پاک فوج کی چیک پوسٹ پر بطور کمانڈنگ آفیسر ذمہ داریاں انجام دینے والے 22 سالہ لیفٹیننٹ ارسلان عالم دہشت گردوں سے مقابلے میں شہید ہوگئے۔
3 اکتوبر کے روز راجگال میں ایک بار پھر افغانستان سے دہشت گردوں نے فائرنگ کی جس میں پاک فوج کے صوبیدار اظہر علی شہید ہوگئے۔
اظہر علی کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
5 اکتوبر کے روز دہشت گردوں نے آسان ہدف ڈھونڈا اور بلوچستان کے علاقے جھل مگسی میں ایک درگاہ کو نشانہ بنایا۔
درگاہ فتح پور پر خودکش حملہ آور نے حملہ کیا جس میں مجموعی طور پر 20 افراد شہید ہوئے جن میں 2 پولیس اہلکار بھی فرض کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے۔
درگاہ کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے خودکش حملہ آور کو اندر آنے سے روکنے کی کوشش کی جس پر اس نے خودکو گیٹ پر ہی دھماکے سے اڑالیا۔
اس حملے میں پولیس کا ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) اور سپاہی شہید ہوا۔
13 اکتوبر کو کوئٹہ کے فقیر محمد روڈ پر پولیس موبائل کو نشانہ بنایا گیا جہاں دہشت گردوں نے ڈیوٹی پر مامور موبائل پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار محمد علی شہید ہوگیا۔
18 اکتوبر کے روز کوئٹہ میں دہشت گردوں نے فورسز کو نشانے پر لیا اور سریاب کے علاقے میں خودکش حملہ آور نے ایلیٹ فورس کے جوانوں کو لے جانے والے ٹرک کو نشانہ بنایا۔
دہشت گردی کی اس کارروائی میں 8 افراد شہید ہوئے جن میں 6 پولیس اہلکار شامل تھے۔
9 نومبر کو صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے خیبرایجنسی میں راجگال کے مقام پاک افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں نے سرحد پار سے فائرنگ کی۔
دہشت گردوں نے نئی تعمیر شدہ چیک پوسٹ پر فائرنگ کی جس سے پاک فوج کے سپاہی محمد الیاس شہید ہوگئے۔
9 نومبر کو کوئٹہ میں پولیس کے اعلیٰ افسر نے جام شہادت نوش کیا۔
ڈی آئی جی موٹر ٹرانسپورٹ اینڈ ٹیلی کمیونیکشن حامد شکیل اپنے گھر سے دفتر کے لیے نکلے تو ایئرپورٹ روڈ پر خودکش حملہ آور نے دھماکا کردیا جس کے نتیجے میں پولیس کے اعلیٰ افسر حامد شکیل شہید ہوگئے۔
شہید ڈی آئی جی حامد شکیل بلوچستان کے ضلع خضدار کے رہائشی تھے، انہوں نے 1988 میں پولیس سروس جوائن کی، ان کے والد پاک فوج میں افسر رہے تھے۔
شہید حامد شکیل کا شمار باصلاحیت اور فرض شناس افسران میں کیا جاتا تھا۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ اور تین بیٹے شامل ہیں۔
13 نومبر کے روز دہشت گردوں نے باجوڑ ایجنسی میں پاک افغان سرحد کے قریب سرحد پار سے فائرنگ کی جس میں پاک فوج کے کیپٹن جنید حفیظ اور سپاہی رہام شہید ہوگئے۔
باجوڑ ایجنسی میں ہونے والے اس حملے میں پاک فوج کے 4 جوان زخمی بھی ہوئے۔
کوئٹہ میں پولیس افسران کو نشانہ بنانے کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ 15 نومبر کو پھر پولیس کے اعلیٰ افسر کو دہشت گردوں نے نشانے پر رکھا۔
کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں دہشت گردوں نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ جانے والے ایس پی انویسٹی گیشن محمد الیاس پر حملہ کردیا۔
محمد الیاس کی گاڑی پر گولیاں کی بوچھاڑ کردی گئی جس میں ایس پی محمد الیاس، ان کی اہلیہ، جواں سال بیٹا اور پوتا شہید ہوگئے۔
22 نومبر کو قوم کے ایک اور سپوت پاک فوج کے جواں سال میجر محمد اسحاق مادر وطن پر قربان ہوگئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں آپریشن کے دوران میجر اسحاق نے جام شہادت نوش کیا۔
28 سالہ میجر اسحاق کا تعلق خوشاب سے تھا اور وہ حافظ قرآن تھے۔
شہید میجر اسحاق کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور ایک سال کا بچہ شامل ہے۔
24 نومبر کی صبح دہشت گردوں نے پشاور میں کارروائی کی جہاں پولیس کے اعلیٰ افسر کو نشانہ بنایا گیا۔
ایڈیشنل آئی جی اشرف نور گھر سے دفتر کے لیے نکلے تو حیات آباد کے علاقے میں موٹرسائیکل پر سوار خودکش حملہ آور نے ان پر حملہ کردیا۔
خودکش حملے میں ایڈیشنل آئی جی کی گاڑی مکمل تباہ ہوگئی اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔
اشرف نور خیبرپختونخوا پولیس کے سینئر افسر تھے، ان کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔
شہید اشرف نور نے زراعت میں ایم ایس سی کر رکھا تھا اور انہوں نے 1989 میں پولیس سروس جوان کی۔
شہید محمد اشرف نور کی پہلی تعیناتی کہوٹہ میں بطور ایس ڈی پی او ہوئی اور وہ ایس پی ٹریفک، ایس پی ہیڈ کوارٹر ایبٹ آباد، ڈی پی او چترال اور ڈی پی او کوہستان کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
یکم سمبر کے روز پاک فوج کا ایک اور سپاہی تخریب کاری کی زد میں آگیا۔
مہمند ایجنسی میں قائم پاک فوج کی چیک پوسٹ پر تعینات سپاہی اپنی پوسٹ کے لیے پانی لے کر جارہا تھا کہ راستے میں بارودی مواد پھٹنے سے اس کی زد میں آکر شہید ہوگیا۔
12 دسمبر کے روز قوم کے ایک اور بیٹے نے ارضِ پاک کو اپنے لہو سے سیراب کردیا۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں نے پاک فوج کے نوجوان افسر سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید اور ان کے ہمراہ سپاہی بشارت شہید ہوگئے۔
21 سال کے نوجوان سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید کا تعلق بورے والا کے علاقے وہاڑی سے تھا اور انہوں نے حال ہی میں پی ایم اے کورس پاس کیا تھا۔
شہید ہونے والے 21 سالہ دوسرے جوان سپاہی بشارت کا تعلق گلگت کے گاؤں دینور سے تھا۔
22 دسمبرکو مہمند ایجنسی میں پاک افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں نے افغانستان سے فائرنگ کی جس میں تین ایف سی اہلکار شہید ہوگئے۔
ایف سی اہلکار کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ شنکرائی کے علاقے میں چوکی بنانے میں مصروف تھے۔
دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے ایف سی اہلکاروں میں سپاہی حق نواز، لانس نائیک ارشاد حسین اور حوالدار منیر خان شامل تھے۔
مہند ایجنسی میں ایف سی اہلکاروں کی شہادت کے ٹھیک ایک روز بعد ایک بار پھر ایف سی کے تین اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔
24 دسمبر کو شمالی وزیرستان میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں تین ایف سی اہلکار شہید ہوگئے۔
شمالی وزیرستان میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیم معمول کے سرچ آپریشن پر تھی کہ اس دوران بارودی مواد کا دھماکا ہوا جس میں تین ایف سی اہلکار عنایت اللہ خٹک، محسن علی طوری اور سپاہی صفت اللہ شہید ہوگئے۔