30 دسمبر ، 2017
لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور وزیر قانون رانا ثنااللہ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر صفائی دینے کے لیے آمادگی ظاہر کردی۔
پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اے پی سی طلب کی اور طاہرالقادری کا کہنا ہےکہ اب عوامی احتجاج اور دھرنے سمیت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن پر وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور وزیر قانون رانا ثنااللہ صفائی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن پنجاب حکومت اس بارے میں معافی مانگنے کو تیار نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ شہبازشریف اور رانا ثنااللہ قسم اٹھانے یا حلفاً کہنے کو بھی تیار ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد سے اب تک عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈاپور اور رانا ثنااللہ کے درمیان چار ملاقاتیں ہوچکی ہیں، خرم نواز نے راناثناءاللہ سے 2 ملاقاتیں ایک دوست گل شیر کے گھر پر کیں، 180 ایچ ماڈل ٹاؤن میں بھی دونوں کی ملاقات ہوئی جس میں ایک اہم شخصیت بھی شامل تھی۔
دوسری جانب اس حوالے سے جیونیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ‘میں قسم اٹھانے کو تیار ہیں کہ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا، اس واقعے پر جب جے آئی ٹی بنی اس میں وزیراعلیٰ اور اور میں بھی پیش ہوا اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا‘۔
رانا ثنااللہ کے مطابق ’میں نے جے آئی ٹی میں پوری طرح واضح کیا کہ یہ واقعہ کوئی منصوبہ بندی نہیں، جے آئی ٹی کو بتایا کہ اس واقعے میں طاہرالقادری کےکارکنان کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے، طاہرالقادری نے اپیلیں کرکے لوگوں کو ورغلایا اور پولیس سے تصادم کرایا اس لیے اس واقعے میں اس چیز کا بھی عمل دخل ہے‘۔
وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ یہ کوئی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا، صرف اس موقع پر پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر ایک حادثہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ہمیشہ انہیں انگیج کرنے کی کوشش کی اور معاملے کو قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچانے کا کہا، ان سے کہا تفتیش میں شامل ہوں لیکن یہ لوگ تفتیش میں شامل نہیں ہوئے اور اب عدالت میں پیش ہورہے ہیں‘۔
رانا ثنااللہ نے مزید کہا کہ عوامی تحریک کے ارد گرد شکاری بیٹھے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس معاملے کو اٹھایا جائے تاکہ ان کو الیکشن میں فائدہ پہنچے۔
وزیر قانون پنجاب نے خرم نواز گنڈا پور سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 2015 اور 16ء میں خرم سے ملاقاتیں ہوئی اور ہر ملاقات میں مہینے ڈیڑھ مہینے کا فرق ہے۔
یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔
اس موقع پر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔
پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جس کی رپورٹ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خان کو بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ چھان بین کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر قانون فائرنگ کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔
دوسری جانب اس واقعے کی جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں عدالتی تحقیقات بھی کرائی گئیں، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا تھا۔
جس کے بعد عوامی تحریک کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا، جس نے پنجاب حکومت کو مذکورہ انکوائری رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔