بلاگ
Time 05 جنوری ، 2018

جمہوریت یا جنگ؟

امریکی صدر کے ذاتی خیالات جو بھی ہوں، ہمیں امریکی جمہوری نظام کو جھنجوڑنا ہوگا—۔

جہلم سے تعلق رکھنے والے بھارتی وزیراعظم اندر کمار گجرال پاک-بھارت دوستی کے بہت بڑے علم بردار تھے اور انہیں بھارت کے سنجیدہ دانشوروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ ان سے انٹرویو کا موقع ملا تو انہوں نے علم و دانش بھرا ایک فقرہ کہہ کر مجھے حیران کردیا، ان کا کہنا تھا کہ ’’جب سے یہ دنیا بنی ہے دو جمہوری ممالک کے درمیان ایک بھی جنگ نہیں ہوئی‘‘۔

ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر ریاست جمہوری ہوتو ایسا موقع ہی نہیں آتا کہ جنگ کرنی پڑے اور اگر دونوں ہی ملک جمہوری ہوں تو ان کے درمیان امن کے سو راستے کھلے ہوتے ہیں، جنگ کا بند دروازہ کبھی کھل ہی نہیں پاتا۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ جنگ سے بچنا ہے تو جمہوریت لاؤ۔ اگر جمہوریت ہوگی تو جنگ نہیں ہوگی۔

اس انٹرویو کے بعد میرا فوری ردعمل یہ تھا کہ آئی کے گجرال کی یہ بات محض مفروضہ ہے۔ تاریخی طور پر یہ درست نہیں لگتی چنانچہ میں نے دنیا کی کئی جنگوں کے احوال کو تفصیل سے پڑھا۔

کئی جمہوری ممالک نے جنگیں لڑیں مگر ان کا مخالف فریق غیرجمہوری تھا۔ کارگل کی جنگ میں پاکستان میں نواز شریف کی جمہوری حکومت تھی جبکہ بھارت میں بھی منتخب قیادت برسراقتدار تھی مگر تفصیل میں جائیں تو اس جنگ میں نواز شریف کی مرضی نظر نہیں آتی۔یورپ اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں بھی آئی کے گجرال کا مقولہ درست نکلا۔

وقت گزرتا گیا اور مجھے آہستہ آہستہ یہ ثابت ہونے لگا کہ گجرال تو اس صدی کا چانکیہ تھا۔ آخر چانکیہ بھی تو اسی خطے ٹیکسلا کا ہی رہائشی تھا۔ چانکیہ، چندر گپت موریہ کا وہ مشیر تھا جس کے مشورے پر چل کر یونانیوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ 

جمہوری ممالک کے درمیان جنگ نہ ہونے پر سوچ و بچار کی دانش مندوں سے وجوہات جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ کسی بھی ملک کی اپوزیشن، جسے ہم انتہائی فضول گردانتے ہیں جنگیں نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے۔جمہوری ملک میں اپوزیشن اختلاف رائے کا اظہار کرتی ہے، حکومت پر تنقید کرتی ہے اور کبھی حکومت جنگ جوئی پر آمادہ ہو تو اس کی مخالفت کرتی ہے، اسی طرح پارلیمان جسے ہم مجبور محض اور ربڑ اسٹیمپ قرار دیتے ہیں اگر یہ آزادانہ طور پر کام کرے، وہاں مباحثے ہوں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مناظرے ہوں، ایشوز کے بند کواڑوں کو کھولا جائے اور پھر ان پر کھل کر بحث کی جائے تب بھی پارلیمان جنگ کی طرف نہیں جانے دیتی۔ 

اسی طرح منتخب حکومتیں جنہیں ہم ہر روز ڈمی قرار دیتے ہیں، یہ حفاظتی شیلڈ کا کام کرتی ہیں اور کوئی بھی دوسرا ملک حملہ آور ہونے سے پہلے سو بار سوچتا ہے کہ جمہوری ملک پر حملہ کیا تو پورا ملک اور اس کے ادارے ایک صفحے پر ہوں گے۔ یوں اس ملک کو ہرانا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اگر کسی ملک میں اپوزیشن نہ ہو، جمہوریت نہ ہو تو حکومت جب چاہے جنگ کا اعلان کردے اپوزیشن ہی نہیں ہوگی تو اختلاف کیسا؟ پارلیمان نہ ہوگی تو بحث مباحثہ کہاں، منتخب حکومت نہیں ہوگی تو اسے رائے عامہ کا احترام کیونکر ہوگا۔ یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں آج تک دو جمہوری ممالک کے درمیان جنگ کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔

امریکی مسلم دانش ور فرید ذکریا نے اپنی مشہور کتاب 'فیوچر آف فریڈم' کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ ’’سنہ 1900 میں دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں تھا جہاں جمہوریت نافذ ہو اور آج صرف 117 سال میں 119 ممالک میں جمہوریت آ چکی ہے۔ یوں آج دنیا کے 62 فیصد ممالک میں جمہور یعنی عوام ملک اور ریاست کا نظام چلاتے ہیں ۔‘‘

دنیا کی دو بڑی جنگوں نے اقوام عالم کو پہلے لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ بنانے پر مجبور کیا اور یوں ایک ریاست کی طرف سے دوسری ریاست کی جغرافیائی حدود کو عبور نہ کرنے کا معاہدہ طے ہوا اور جنگوں میں کمی آئی، سرد جنگ کے اس دور میں بعض منہ زور ممالک خلاف ورزیاں کرتے رہے لیکن عمومی طور پر طے شدہ اصولوں سے انحراف کرنا مشکل ہوتا گیا۔

یہ سلسلہ 1990ء تک چلا جب دوسری سپر پاور سوویت یونین کو زوال آیا تو سرد جنگ کا دور ختم ہوگیا اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ نے بدمست ہاتھی کی طرح پرانے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے من مانے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے دوسری ریاستوں میں براہ راست مداخلت شروع کردی۔ کبھی صومالیہ کی جغرافیائی حدود کو پامال کیا گیا تو کبھی بوسنیا میں مثبت مداخلت کی گئی، کبھی کویت کو بچایا گیا تو کبھی صدام اور کبھی قذافی کو بالجبر رخصت کیا گیا۔ گویا دنیا واحد سپرپاور کی مداخلت کے لیے کھلی ہے۔ 

اقوام عالم نے اقوام متحدہ بناتے وقت ویٹو اور سلامتی کونسل کو استثنیٰ دے کر جمہوری اصولوں کی نفی کی، ورنہ آج اگر اقوام متحدہ میں رائے عامہ کا احترام ہوتا تو القدس کی قرار داد کے بعد اسرائیل کے خلاف پابندیاں لگ جاتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح جمہوریت دنیا میں امن لائی ہے، اقوام متحدہ میں بھی جمہوریت لائی جائے تو دنیا اور زیادہ پر امن ہو جائے گی۔

صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز ٹویٹ کا جواب بھی جنگ میں نہیں جمہوریت میں ہے۔ سویلین حکومت کو فیصلوں کا اختیار دیا جائے، جس طرح جنرل باجوہ نے امریکی وفود کے ساتھ علیحدہ ملاقات کی بجائے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں مذاکرات کیے، یہ خوش آئند جمہوری رویہ تھا۔پارلیمان اور منتخب حکومت کو خارجہ پالیسی پر بحث کرنی چاہیے اور اپوزیشن کو کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے، جمہوریت کا پہیہ چلتا نظر آئے گا تو جنگ کے سائے دور ہوتے جائیں گے، اگر یہ پہیہ رک گیا یا آہستہ ہوتا نظر آیا یا پھر روکا گیا اور کوئی کٹھ پتلی نظام لایا گیا تو ہمیں گھائل کرنا آسان ہو جائے گا۔

امریکی صدر کے ذاتی خیالات جو بھی ہوں، ہمیں امریکی جمہوری نظام کو جھنجوڑنا ہوگا۔ ہمیں اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی، امریکی اخبارات اور رائے عامہ میں اپنا کیس کھول کر رکھنا ہوگا۔ پاکستان، عراق یا لیبیا نہیں ایک منظم جمہوری اور ایٹمی ملک ہے۔ ہمارے مضبوط دلائل صدر ٹرمپ کے کسی بھی فیصلے میں سدِ راہ بن سکتے ہیں۔ دوسری طرف ہمیں خود احتسابی بھی کرنی ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ 17سال قبل اختیار کیے گئے بیانیہ کو دنیا کیوں قبول نہیں کر رہی اور ہم ایسا کیا کر رہے ہیں کہ ہزاروں جانوں کی قربانیوں کے باوجود ہم ابھی تک دہشت گردوں کے مدد گار سمجھے جاتے ہیں۔

اِدھر جنوری بیرونی دباؤ کے حوالے سے تشویشناک ہے، اُدھر اسی مہینے میں داخلی تبدیلیوں کی ڈیڈ لائن مقرر ہے کیونکہ اگر سینیٹ کے الیکشن کو روکنا ہے، دو تین سالہ نگران کابینہ بنانی ہے یا جلدی الیکشن کروانا ہے تو سارے فیصلے اسی ماہ میں ہوں گے۔

اسی سلسلے میں بلوچستان میں ٹریلر دکھایا جا رہا ہے جو سندھ، خیبر پختونخوا سے ہوتا ہوا پنجاب میں آئے گا۔اگر تو صدر ٹرمپ کی ٹویٹ ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ امریکا کا ریاستی فیصلہ ہے تو ہمیں سیاسی انجینئرنگ بند کرکے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنی چاہیے، جس میں فوج، حکومت اور اپوزیشن مشترکہ طور پر دفاع، الیکشن اور جمہوریت کے حوالے سے متفقہ فیصلوں کا اعلان کریں۔ اگر سیاسی انجینئرنگ جاری رہی تو مزاحمتی بیانیہ بھی زور پکڑے گا اور کوئی بعید نہیں کہ ہم جمہوریت کو خداحافظ کہہ کر جنگ کو گلے لگا لیں اور پھر صدیوں تک پچھتاتے رہیں۔یہ وقت جنگ کا نہیں جمہوریت کا ہے!


یہ تحریر 5 جنوری 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔