دنیا
Time 06 جنوری ، 2018

ایران کے معاملے پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکا کو ہزیمت کا سامنا

ایران میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکا کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، روس اور فرانس نے مظاہروں کو ایران کا داخلی معاملہ قرار دے دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکا کی درخواست پر ایران کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا جس کا مقصد ایران میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے مظاہرین کی اخلاقی حمایت اور ان کی آواز دنیا بھر میں پہنچانا تھا۔

امریکا شروع ہی سے ایران میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کررہا ہے اور سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔

تاہم سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران امریکا کو اس وقت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب روس اور فرانس نے ایران میں مظاہروں کے معاملے پر سلامتی کونسل کے اجلاس کو وقت کا ضیاع اور تہران کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے موقف اپنایا کہ ’’دنیا کو ان مظاہرین کی ہمت کو سراہنا چاہیے اور ان کے پیغام کو آگے پہنچانا چاہیے‘‘۔

انہوں نے ایران میں ہونے والے مظاہروں کی وجہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو قرار دیا اور کہا کہ یہ معاملہ ایک بین الاقوامی مسئلے میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے لہٰذا سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرنا ضروری تھا۔

نکی ہیلے نے کہا کہ ایرانی حکومت اس وقت نوٹِس پر ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ ان کی حکومت کیا کررہی ہے۔

امریکا پلیٹ فارم کا ناجائز فائدہ اٹھارہا ہے

اجلاس میں روس نے مؤقف اپنایا کہ امریکا ایک علاقائی تنازع میں اقوام متحدہ کے سب سے طاقتور ادارے کو گھسیٹ رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے سفیر ویسلی نیبنزیا نے کہا کہ امریکا اس پلیٹ فارم کا ناجائز فائدہ اٹھارہا ہے، ایران کو اپنے مسائل خود حل کرنے دیے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کی جانب سے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مقصد انسانی حقوق اور ایرانی عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

روسی سفیر نے یہ بھی کہا کہ امریکا ایران میں ہونے والے مظاہروں کا فائدہ اٹھاکر جوہری معاہدے کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

ایران میں مظاہرے عالمی خطرہ نہیں

اجلاس میں فرانس نے بھی امریکا کے مؤقف سے اختلاف کیا اور کہا کہ ایران میں ہونے والے مظاہرے کوئی عالمی خطرہ نہیں۔

فرانسیسی سفیر برائے اقوام متحدہ فرانکوئی ڈیلاترے نے کہا کہ ایران کو مظاہرین کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے تاہم گزشتہ دنوں ایران میں ہونے والے واقعات سے عالمی امن و سیکیورٹی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

چین نے بھی سلامتی کونسل کے اجلاس کو ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا جبکہ ایتھوپیا، کویت اور سوئیڈن نے نے بھی اس معاملے پر ہونے والی بحث پر تشویش کا اظہار کیا۔

ایران میں مظاہرے

خیال رہے کہ ایران میں 28 دسمبر کو اچانک حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے جس میں مظاہرین مہنگائی اور حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے مظاہروں کا سلسلہ تہران سمیت دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا تھا اور 6 روز تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

4 جنوری کو ایران پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملک میں جاری بغاوت کی مہم کو ختم کردیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 15 ہزا ر کے قریب افراد افرا تفری پھیلانے کی کوشش کررہے تھے جسے ناکام بنادیا گیا ہے۔

اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ حکومت کے حق میں سڑکوں پر نکلے تھے۔

امریکا کی حمایت

اس سارے معاملے میں امریکا کھل کر مظاہرین کی حمایت کررہا تھا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے بیانات جاری کررہے تھے۔

نئے سال کے موقع پر بھی امریکی صدر نے ابتدائی ٹوئٹس میں پاکستان اور ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ایران کے حوالے سے اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے ایران سے کیے جانے والے بدترین معاہدے کے باوجود وہ ہر سطح پر بری طرح ناکام ہورہا ہے۔ ایران کے عظیم لوگوں کو کئی برسوں سے دبا کر رکھا گیا ہے۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ایرانی عوام خوراک اور آزادی کی متلاشی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی دولت اور انسانی حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، یہ وقت تبدیلی کا ہے۔

اس سے قبل بھی ٹرمپ نے ایران کے معاملے پر ٹوئٹس کی تھیں جن میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ایران میں مظاہرے ہورہے ہیں، لوگوں کو شعور آرہا ہے کہ کس طرح ان کا پیسہ چرایا جارہا ہے اور دہشت گردی میں استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہ اسے مزید برداشت نہیں کریں گے، امریکا ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو باریکی سے دیکھ رہا ہے۔

مزید خبریں :