10 جنوری ، 2018
پنجاب کے شہر قصور میں مبینہ زیادتی کے بعد 7 سالہ بچی زینب کے قتل کے واقعے پر پورا شہر سراپا احتجاج جبکہ پورا ملک سوگ کی کیفیت میں ہے۔
واقعے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے، بچی کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار نہ کیا جاسکا جبکہ فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
متاثرہ بچی کی نماز جنازہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھائی، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ 'ننھی زینب کا قتل انسانیت کی تذلیل ہے'۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ 'چار دن گزر گئے لیکن قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکا، حکومت لوگوں کے جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہو گئی ہے اور اسے اب اقتدار کا کوئی حق نہیں ہے'۔
بعد ازاں ننھی زینب کو خواجہ زامل قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
پولیس کے مطابق قصور کے علاقے روڈ کوٹ کی رہائشی 7 سالہ زینب 4 جنوری کو ٹیوشن جاتے ہوئے اغواء ہوئی اور 4 دن بعد اس کی لاش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی۔
پولیس کے مطابق بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا، جس کی تصدیق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوئی۔
پولیس کی جانب سے کمسن زینب کے اغواء، زیادتی اور قتل میں ملوث مبینہ ملزم کا خاکہ جاری کردیا گیا۔
تاہم جمعرات کے روز ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا خاکہ غلط نکلا کیوں کہ خاکہ ویڈیو میں نظر آنے والے شخص سے مشابہت نہیں رکھتا۔
ذرائع کے مطابق خاکہ جلد بازی میں اہل علاقہ کی معلومات کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔
اس سے قبل ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد نے جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے تفتیش جاری ہے جبکہ بچی کے لواحقین نے بھی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی ہے۔
ڈی پی او کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچی کو ملزم کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ بچی کے والدین عمرہ کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے جو واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد واپس آئے ہیں۔
ڈی پی او کا کہنا تھا کہ 'مجموعی طور پر زیادتی کے بعد قتل ہونے والی یہ آٹھویں بچی ہے اور زیادتی کا شکار بچیوں کے ڈی این اے سے ایک ہی نمونہ ملا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'قصور کے واقعات پر 5 ہزار سے زائد افراد سے تفتیش کی گئی ہے جبکہ 67 افراد کا میڈیکل چیک اپ کروایا جاچکا ہے'۔
پولیس کی غفلت کا تاثر درست نہیں: آر پی او شیخوپورہ رینج
آر پی او شیخوپورہ رینج ذوالفقار حمید نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ بچی کی موت زیادتی کے بعد گلا دبانے کے نتیجے میں ہوئی اور اس واقعے پر ہر کوئی سوگوار ہے۔
آر پی او نے اس تاثر کو رد کردیا کہ پولیس نے واقعے کے بعد تفتیش میں غفلت کا مظاہرہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بچی کے اہلخانہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی اور اہل محلہ نے بھی معاونت کی، لیکن پولیس کی غفلت کا تاثر درست نہیں۔
آر پی او کے مطابق علاقے میں نصب درجنوں سی سی ٹی کیمروں کی فوٹیج کا جائزہ لینا ایک مشکل کام ہے، لیکن پولیس نے کافی دور تک جاکر سرچ کیا، فوٹیجز دیکھیں اور پھر اس میں سے متعلقہ فوٹیج نکالی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے سیکیورٹی کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات کیے ہیں۔
آر پی او کے مطابق ڈی این اے کے 96 نمونے ٹیسٹ کے لیے بھجوائے گئے، جن میں سے 5 کیسز ایسے ہیں جہاں ہمیں شک ہے کہ ڈی این اے ایک جیسا ہے۔
واقعے پر لوگوں کا احتجاج
بچی کے قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور لوگ احتجاج کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئے۔
لوگوں نے سڑکیں بلاک کردیں اور مارکیٹیں بھی بند کردی گئیں۔
جگہ جگہ پولیس کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے اور فیروز پور روڈ پر مظاہرین نے پولیس کو دھکے بھی دیئے۔
بعدازاں مشتعل احتجاجی مظاہرین قصور میں فیروز پور روڈ پر ڈی سی آفس کا گیٹ توڑ کر اندر گھس گئے، مشتعل مظاہرین نے پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور پتھراؤ کیا اور پولیس موبائلوں کے شیشے توڑ دیئے۔
حالات کشیدہ ہونے پر پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوگئے، جن میں سے 2 افراد بعدازاں دم توڑ گئے۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ قصور میں ایک سال کے دوران 11 کمسن بچیوں کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا، لیکن پولیس ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی۔
مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے اہلکار گرفتار
حکومت پنجاب نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں بتایا ہے کہ قصور میں مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے چاروں پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔
ترجمان حکومت پنجاب کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایڈیشنل آئی جی ابوبکرخدا بخش کی سربراہی میں جےآئی ٹی تشکیل دیدی۔
انہوں نے بتایا کہ جےآئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے افسران بھی ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد کو عہدے سے ہٹاکر او ایس ڈی بنادیا گیا ہے جبکہ ان کی جگہ زاہد نواز مروت کو ڈی پی او قصور لگا دیا گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ انکوئری کی نگرانی وہ خود کریں گے۔
قصور میں رینجرز طلب
کمشنر لاہور عبداللہ سنبل کا کہنا ہےکہ قصور میں حالات کشیدہ ہونے پر رینجرز کو طلب کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر قصور کی سرکاری رہائشگاہ کا گھیراؤ کر رکھا ہے جبکہ صورت حال کو کنٹرول میں ناکام رہی جس کے بعد امان و امان قائم کرنے کے لیے رینجرز کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے محکمہ داخلہ پنجاب کو مراسلہ لکھ دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بچی کی لاش جس جگہ سے ملی، یہ وہی مقام ہے جہاں اس سے قبل بھی ریپ کا شکار ہونے والے بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔
ایک ماہ قبل ایک 5 سالہ بچی بھی یہاں سے نیم مردہ حالت میں ملی تھی، جو اس وقت چلڈرن ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔
پولیس کے مطابق مذکورہ بچی کو بھاری مقدار میں نشہ آور ادویات دی گئی تھیں۔
اس سے قبل 2015 میں بھی قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی کے بعد ان کی ویڈیوز بنانے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔
قومی اسمبلی و سینیٹ میں تحریک التواء جمع
قصورمیں 7 سالہ بچی سے زیادتی اورقتل کے معاملے پر بحث کے لیے جماعت اسلامی کی جانب سے قومی اسمبلی، سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں تحریک التواء جمع کرادی گئی ہے۔
تحریک التواء میں اس دلخراش واقعے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے درخواست کی گئی ہے کہ مذکورہ ایوانوں کی معمول کی کارروائیاں روک کر اس معاملے کو زیر بحث لایا جائے۔
تحریک میں واقعے کی آزادانہ اور شفاف انکوائری کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ اور تشدد کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے قصور واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے 24 گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے میڈیا پر چلنے والی خبروں پر ازخود نوٹس لیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قصور میں مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل ہونے والی 7 سالہ بچی زینب کے واقعے کی سخت مذمت کی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف نے مقتول بچی کے والدین کی جانب سے انصاف کی فراہمی کی اپیل پر ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور انہیں عبرتناک دلوانے کے لیے فوج کو سول انتظامیہ سے ہر ممکن تعاون کرنے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے قصور میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کا نوٹس لے لیا۔
چیف جسٹس نے سیشن جج قصور اور پولیس سے واقعے کی فوری طور پر رپورٹ بھی طلب کرلی۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے قصور میں مبینہ زیادتی کے بعد بچی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کردی۔
شہبازشریف نے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سے رپورٹ طلب کرلی اور ہدایت کی کہ قاتلوں کو گرفتار کرکے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ قاتل قانون کے مطابق قرار واقعی سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے مقتول بچی کے لواحقین سے بھی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ متاثرہ خاندان کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیس پر پیش رفت کی وہ ذاتی طور پر نگرانی کریں گے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے قصور میں زیادتی کےبعد بچی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 'بیٹیوں کی بے حرمتی کرنے والے درندوں کو فوری سزا دی جائے'۔
نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ 'ایسے درندوں کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسے گھناؤنے عمل کی ہمت نہ ہوسکے'۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی قصور واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر پیغام جاری کیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ معصوم زینب کے قابل مذمت اور ہولناک واقعے نے ایک بار پھر یہ عیاں کردیا ہے کہ ہمارے بچے اس معاشرے میں کتنے غیر محفوظ ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں واقعے میں ملوث ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ بچوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو نہ صرف انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے بلکہ قرار واقعی سزا دی جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی قصور میں بچی سے زیادتی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ دل دہلا دینے والا ہے۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ قصور میں بچی سے زیادتی کا واقعہ شریف حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔