قصور میں بچیوں کے ساتھ درندگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں

قصور میں کمسن زینب کے ساتھ زیادتی اور اس کا بہیمانہ قتل اس علاقے میں کوئی نیا واقعہ نہیں۔

اس علاقے میں گذشتہ سال کے دوران 11 بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا جبکہ درندہ صفت مجرمان کی حوس کا شکار ہونے والی پانچ سالہ کائنات آج بھی اسپتال میں زیر علاج ہے۔

ان پے در پے واقعات کے بعد علاقہ پولیس نے نمائشی تیز رفتاتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 100 سے زائد افراد کو شک کی بنیاد پر حراست میں لیا اور اپنی سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے مبینہ طور پر ان میں سے سےکئی کو"جوڑ توڑ" کے بعد با عزت طریقے سے چھوڑ دیا گیا۔

فائل کا پیٹ بھرنے کے لیے 96 مشتبہ افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے لیکن ہوا وہی جو ہونا تھا، ان ’مشتبہ‘ افراد میں سے کسی کا بھی ڈی این اے بچیوں کے نمونوں سے میچ نہیں ہوا اور ان میں سے ایک نے نام نا بتانے کی شرط پر کہا کہ سب کو " کچھ لے دے کر" چھوڑ دیا گیا۔

پولیس کا کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان گھناؤنے واقعات میں سے پانچ میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی پانچ بچیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ میں ایک ہی ملزم کا ڈی این اے تھا لیکن اس کے باوجود یہ درندہ اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ جرم بھی پولیس کی ملی بھگت بلا خوف کیا جارہا ہے۔

یہ معاملات پنجاب پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی اس تمام معاملے کو مشکوک بناتی ہے کہ فرانزک لیب سے ملنے والی رپورٹ کو بھی پولیس نے خفیہ رکھا لیکن کسی بھلے انسان کی کوشش سے یہ رپورٹ منظر عام پر آگئی جس سے صاف ظاہر ہے کہ پانچ بچیوں کے ٹیسٹ میں ایک ہی ملزم کا ڈی این اے میچ کرتا ہے۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ مجرم کی شناخت کے باوجود پنجاب پولیس کے اہلکار اس خونی بھیڑیے کو اب تک گرفتار نہیں کر سکے تاہم پولیس اہلکار معمول کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھوکھلی بیان بازی کرکے جان چھڑانے میں کامیاب رہی ہے۔

پولیس پر علاقہ مکینوں کا دباؤ بڑھا تو اس نے ان معاملات کو ختم کرنے اور واقعات پر مٹی ڈالنے کے لیے چار ملزمان کو جعلی پولیس مقابلے میں ماردیا۔

پولیس مقابلے میں چار مبینہ ملزمان کے مارے جانے کے چند ہی دنوں بعد بچیوں سے زیادتی اور قتل کے مزید پانچ واقعات ہوگئے۔

علاقے مکینوں کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس نے ہر واقعے کے بعد اس کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرکے اسے دبانے کی کوشش کی۔

اگر کسی نے رپورٹ درج کرنے پر زور دیا تو پولیس نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بے گناہ ہی کو کیس میں دھرلیا جاتا۔

علاقے میں خوف کا یہ عالم تھا کہ واقعہ رونما ہونے کے بعد ہر شخص اس کی تفصیل تو بغور سنتا اور افسوس بھی کرتا لیکن پولیس کے خوف سے اس درندگی کے خلاف بولنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔

ڈیرھ ماہ قبل پانچ سالہ بچی کائنات کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسے مردہ سمجھ کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا۔

اسے کمسن کائینات کی خوش قسمتی کہیں یا قسمت کی ستم ظریفی کہ وہ بچ گئی۔ کائنات ابھی تک اسپتال میں زیر علاج ہے۔

اس مظلوم کے غریب باپ کی کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ پولیس نے روایتی ظالمانہ رویہ برقرار رکھتے ہوئے اس غریب کی آہ پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ بات آگے گئی۔

قصور میں پھر معصوم زینب کو وحشیانہ زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے اس کے لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئی۔

اس بار علاقہ مکینوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے اس ظلم پر صدائے احتجاج بلند کی لیکن پولیس نے بھی ان پر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے گولیوں کی بارش کر دی۔

حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر ضلع قصور کے آرپی او ذوالفقار عامر نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ 12 معصوموں سے زیادتی اور قتل کے واقعات میں سے پانچ کا مجرم ایک ہی شخص ہے جس کا ڈی این اے میچ کر رہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ایک سال میں 12 بچیوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات کے بعد پولیس افسران نہایت بے شرمی سے اپنی نوکری بچانے کے لیے ناکامی تسلیم کر رہے ہیں۔

حکومت پنجاب نے بھی جان چھڑانے کے لیے روایتی طریقہ کار اپناتے ہوئے تبادلوں اور تحقیقاتی ٹیمیں بنانے کا اعلان کر دیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پنجاب اس مکروہ جرم میں ملوث افراد اور ان کو پناہ دینے والوں کے خلاف کیا کرتی ہے؟

مزید خبریں :