18 جنوری ، 2018
کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔
شہر قائد میں کراچی پریس کلب پر بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کے دوران فکس اٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کے خلاف نعرے لگائے، مظاہرین نے الزام لگایا کہ نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
ضلع ٹانک میں بھی لوگوں نے وزیر آباد سے احتجاجی جلوس نکالا اور کشمیر چوک پر دھرنا دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ کے قتل کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔
ضلع بنوں اور بلوچستان کے علاقے ژوب میں نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے چیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے اور واقعے کی تحقیقات کیلیے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔3
پشاور میں بھی مختلف تنظمیوں کی جانب سے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف نے نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف قرارداد سندھ اسمبلی میں جمع کرا دی جس میں تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قرارداد تحریک انصاف کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ ملیر میں نقیب اللہ محسود کو ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ نے پولیس مقابلے میں شہید کردیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ آئے روز پولیس مقابلوں میں بعض بے گناہوں کو مارا جارہا ہے، نقیب اللہ محسود کے قتل کی عدالتی تحقیقات کرائی جائےْ
قرارداد ایوان میں جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خرم شیرزمان کا کہنا تھا کہ نقیب کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا، چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کا از خود نوٹس لیں۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے ہاتھوں مبینہ پولیس مقابلے میں نواجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث آنے کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے بھی نوٹس لیا ہے اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کو انکوائری کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سہیل انور سیال نے ڈی آئی جی ساوتھ آزاد خان کو انکوائری کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔
واضح رہے کہ راؤ انوار نے میڈیا سے گفتگو میں 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
ان میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
راؤ انوار کا دعویٰ تھا کہ نقیب اللہ جیل توڑنے، صوبیدار کے قتل اور ایئرپورٹ حملے میں ملوث مولوی اسحاق کا قریبی ساتھی تھا۔
واضح رہے کہ راؤ انوار کو 'انکاؤنٹر اسپیشلسٹ' کے نام سے جانا جاتا ہے، جو اس سے قبل بھی متعدد مبینہ پولیس مقابلوں میں کئی افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کرچکے ہیں۔
دوسری جانب نقیب اللہ کے رشتے داروں اور دوستوں نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا، ان کا مؤقف ہے کہ مقتول کاروبار کے سلسلے میں کراچی آیا تھا۔
جیو نیوز سے گفتگو میں نقیب اللہ کے ایک رشتے دار نے بتایا کہ 'مقتول ایک سال قبل جنوبی وزیرستان سے کراچی آیا تھا، اس کی الآصف اسکوائر پر کپڑے کی دکان تھی اور وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا'۔