31 جنوری ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت نے پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو 8 فروری کو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کے سلسلے میں بطور گواہ طلب کرلیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی افسر سدرہ منصور نے اضافی دستاویزات جمع کرا دیں۔
سدرہ منصور نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار کی کمپنیوں سے متعلق 2 دستاویز رہ گئی تھیں، جو آج جمع کرائی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ سدرہ منصور گذشتہ روز بھی احتساب عدالت میں پیش ہوئی تھیں اور انہوں نے بیان ریکارڈ کروایا تھا.
سدرہ منصور نے عدالت کو بتایا تھا کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 1993 سے 2009 کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا۔
ایس ای سی پی کے ایک اور گواہ سلمان سعید کو بھی گذشتہ روز طلب کیا گیا تھا، لیکن وہ پیش نہ ہوئے، آج کی سماعت میں سلمان سعید نے ریکارڈ پیش کرنے کے لیے کچھ دیر کی مہلت مانگی، جس کے بعد سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔
بعدازاں سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا اور گواہ سلمان سعید کا بیان ریکارڈ کرلیا گیا۔
سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ عدالت جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی طلبی کے سمن جاری کرے، تاہم جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ 'عدالت سمن کیوں جاری کرے، واجد ضیاء استغاثہ کے گواہ ہیں، نیب انہیں خود پیش کرے'۔
بعدازاں احتساب عدالت نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کو 8 فروری کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں نیب نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے 831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جو مختصر مدت میں 91 گنا بڑھے۔
گذشتہ برس 27 ستمبر کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی تاہم اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار 7 مرتبہ احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوچکے ہیں۔
تاہم بعدازاں مسلسل غیر حاضری پر احتساب عدالت نے 11 دسمبر 2017 کو اسحاق ڈار کو اشتہاری ملزم قرار دے دیا تھا۔
سابق وزیرخزانہ اِن دنوں علاج کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں۔