آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح: نواز شریف کے وکیل نے سپریم کورٹ سے مہلت مانگ لی


اسلام آباد: آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل نے تیاری کے لیے سپریم کورٹ سے مہلت طلب کرلی، جس پر عدالت عظمیٰ نے آئندہ ہفتے تک کا وقت دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ 'نواز شریف کی طرف سے کون آیا ہے؟' جس پر ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ کھڑے ہوئے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے وہ پیش ہوئے ہیں۔

ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے عدالت عظمیٰ سے تیاری کے لیے تین دن کی مہلت طلب کی۔

جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت کی کہ آیندہ ہفتے تیاری کرکے آجائیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر کیس کے سلسلے میں نواز شریف پیش نہ ہوئے تو یکطرفہ فیصلہ دے دیں گے۔

آج سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'سوال یہ ہے کہ کیا نااہل شخص ضمنی یا عام انتخاب لڑ سکتا ہے؟'

جس پر وکیل وسیم سجاد نے جواب دیا کہ مسئلےکا حل نکالنے کے لیے نااہلی کی مدت 5 سال مقرر کی جائے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے سوال اٹھایا کہ عدالتی ڈکلیریشن 5 سال کے بعد ازخود کیسے ختم ہوسکتا ہے؟

جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو شخص الیکشن سے 3 ماہ قبل بے ایمان قرار پائے، کیا وہ عام انتخابات لڑ سکتا ہے۔

جس پر عدالتی معاون منیر اے ملک نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک ساتھ ملا کر پڑھا جائے اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس کے فیصلے میں شامل اپنے نوٹ میں جو قرار دیا ہے، وہ غیر واضح ہے۔

جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل کے دوران زلزلے کے جھٹکے

سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند کے دلائل جاری تھے کہ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے۔

جس پر چیف جسٹس نے سب کو تحمل سے رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔

کچھ دیر بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے اپنی نااہلی کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کر رکھی ہے۔

سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ وہ منیر اے ملک کے دلائل پر بھی انحصار کریں گے اور اپنی جانب سے بھی دلائل دیں گے۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل 62 اور 63کی تشریح کرنا ہوگی۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے پاس آئین کی تشریح کااختیار ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'ایمانداری آرٹیکل 62 ون ایف کاحصہ ہے اور آرٹیکل 62 ون ایف کا اسکوپ وسیع ہے'۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کسی شخص کے خلاف ڈیکلریشن آجائے تو وہ ذہنی طور پر صحتمند نہیں، ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ذہنی طور پر غیر صحتمند شخص تاحیات نااہل ہوگا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نےآرٹیکل 63 میں نااہلی کی مدت کا تعین کردیا ہے، آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا، جس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 62 کی نااہلی ختم نہیں کرناچاہتی تھی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا، 'کیا چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے؟' ساتھ ہی انہوں نے ریمارکس دیئے کہ 'بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے'۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے خلاف جرم کرنے والے سزا بھگت کر رکن اسمبلی بن سکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے، 'ہاں ہم لیڈر شپ، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی بات کر رہے ہیں'۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ایک دن اسی شخص نے وزیر یا وزیراعظم بننا ہے'۔

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلطی پر الیکشن کالعدم ہوتاہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی عوام الناس کے ساتھ جھوٹ ہوگا۔

ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا، 'نااہلی سزا ہے یا معذوری ہے؟ کیا سزا بھگتنے کے بعد کسی امیدوار پر قدغن ہوگی؟ کیا غداری کی سزا بھگت کر آنے والا الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا ؟'

جس پر وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ 'آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت جرم دیوانی ہے فوجداری نہیں'۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 'ہمیں اہلیت اور نااہلیت میں فرق کا جائزہ لینا ہے'۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 میں ٹائم لمٹ نہیں تھی، ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ 'اگر آپ کو 18 ویں ترمیم سے پہلے نااہل کرتے تومدت کتنی ہوتی؟'

جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے جواب دیا کہ 18ویں ترمیم سے پہلے یہ نااہلی تاحیات ہوتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا، 'کیاعدالت کو ہر کیس میں نااہلی کی مدت کا الگ سے تعین کرنا ہوگا؟'

جس پر وکیل سکندر بشیر مہمند نے جواب دیا، 'میں کیس ٹو کیس مدت کے تعین کا حامی نہیں ہوں'۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی معاون منیر اے ملک نے بھی بنیادی حقوق کی بات کی۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ شناختی کارڈ پر نااہلی کو ہم دائمی قرار دے چکے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'شناختی کارڈ کےکیس میں 5 سال نااہلی کا سوچ رہا تھا'۔

آج کی سماعت میں جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر اور عدالتی معاون منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہوگئے، جس کے بعد سماعت کل بروز جمعرات (یکم فروری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔

دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے  تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔

جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔

اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔

ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔


مزید خبریں :