Time 01 فروری ، 2018
پاکستان

18ویں ترمیم میں تمام سیاسی جماعتوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا تھا:چیف جسٹس

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں پر ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 18ویں ترمیم میں تمام سیاسی جماعتوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا تھا۔

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ نے تبدیلی اس لیے نہیں کی کیونکہ مذہبی عناصر کاخوف تھا۔

چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔

گذشتہ روز عدالتی معاون منیر اے ملک اور جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے عدالت عظمیٰ سے تیاری کے لیے مہلت طلب کی تھی، جس پر جسٹس ثاقب نثار نے انہیں آیندہ ہفتے تیاری کرکے آنے کی ہدایت کی تھی۔

آج جب سماعت کا آغاز ہوا تو سابق رکن اسمبلی عبدالغفور لہڑی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ آج وہ دلائل نہیں دے سکیں گے۔

چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ وہ سینیٹر نہال ہاشمی کی سزا پر ڈسٹرب ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'فیصلہ قانون کے مطابق ہے،آپ دلائل دیں'۔

واضح رہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے آج سینیٹر نہال ہاشمی کو عدلیہ مخالف تقریر پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی، جس کے بعد وہ 5 سال کے لیے نااہل ہوگئے۔

سماعت کے دوران وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'آرٹیکل 62 اور 63کو ملاکر پرکھا جائ​ے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی ایک ٹرم کے لیے ہوگی اور نااہل شخص اگلا ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے'۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 'جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا، بددیانتی بھی رہے گی'۔

جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ 'ڈیکلریشن کاغذات نامزدگی کے وقت کردار سے متعلق ہوگا'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'یہی جائزہ لینا ہے کہ ڈیکلریشن کا اطلاق کب تک ہوگا؟'ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'کنڈکٹ سے ثابت کرنا ہوگا کہ بدیانتی ایمانداری میں تبدیل ہوگئی ہے'۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ 'طے یہ کرنا ہے کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی'۔

وکیل درخواست گزار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'دیکھنا ہے کہ آئین میں دائمی نااہلی ہے'۔

جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ 18ویں ترمیم میں تمام سیاسی جماعتوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا۔

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ نے تبدیلی اس لیے نہیں کی کیونکہ مذہبی عناصر کا خوف تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے، 'آپ کا مطلب ہے پارلیمنٹ ڈر گئی تھی؟' ساتھ ہی انہوں نے کہا 'پارلیمنٹ سپریم ہے'۔

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ 'آپ دیکھ لیں فیض آباد میں کیا ہوا'۔

'کیا سرعام برا بھلا کہہ کر توبہ ہوسکتی ہے؟'

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'اگر کسی کو بددیانت قرار دیا گیا ہے تو 5 روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوگا؟'

وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا، 'توبہ کا تصور بھی موجود ہے'۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 'نااہلی کے مقدمات میں توبہ گالیاں دے کر ہوگی'، ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ 'کیا سرعام برا بھلا کہہ کر توبہ ہوسکتی ہے؟'

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'توبہ کا طریقہ بھی موجود ہے، پہلے غلطی اور گناہ کا اعتراف کرنا ہوگا، عوام کے سامنے بددیانتی کااعتراف کرنا ہوگا۔

عبدالغفور لہڑی کے وکیل کامران مرتضی نے دلائل دیتے ہوئے کہا، 'میرا موکل توبہ کرچکا ہے'۔

'غلطی کی معافی بھی پبلک ہونی چاہیے'

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وکیل موکل کی جانب سے توبہ نہیں کرسکتا، جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے، غلطی کی معافی بھی پبلک ہونی چاہیے، توبہ کرنے کا لوگوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا، 'ہم بھی روز توبہ کرتے ہیں، غلطی تسلیم کریں گے تومعافی ہوگی'۔

جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ 'توبہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر آپ شرمندہ ہیں توعدالتی فیصلہ قبول کریں'۔

بعدازاں کیس کی سماعت بدھ (7 فروری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی، جہاں وکلاء اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔

دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔

جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔

اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔

ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔


مزید خبریں :