07 فروری ، 2018
ہری پور: ایبٹ آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے مشال خان قتل کیس کا فیصلہ ہری پور سینٹرل جیل میں سنا دیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج فضل سبحان نے 27 جنوری کو مشال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
فاضل جج نے آج فیصلہ سناتے ہوئے 58 گرفتار ملزمان میں سے ایک ملزم عمران کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
عدالت نے 5 ملزمان میں سے فضل رازق، مجیب اللہ، اشفاق خان کو عمر قید جب کہ ملزمان مدثر بشیر اور بلال بخش کو عمر قید کے ساتھ ساتھ ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی بھی سزائیں سنائیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں 25 دیگر ملزمان کو ہنگامہ آرائی، تشدد، مذہبی منافرت پھیلانے اور مجرمانہ اقدام کے لیے ہو نے والے اجتماع کا حصہ بننے پر 4، 4 سال قید جب کہ 26 افراد کو عدم ثبوت پر بری کرنے کا حکم دیا ہے۔
کیس میں نامزد 61 ملزمان میں سے 58 گرفتار ہیں جب کہ مرکزی ملزم تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے تحصیل کونسلر عارف خان سمیت 3 تاحال مفرور ہیں۔ مفرور دیگر افراد میں طلباء تنظیم کا رہنما صابر مایار اور یونیورسٹی کا ایک ملازم اسد ضیاء شامل ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے آج گرفتار 58 ملزمان میں سے 57 افراد کے کیس کا فیصلہ سنایا جب کہ حال ہی میں گرفتار کیے گئے ایک ملزم پر تاحال فرد جرم عائد نہیں ہو سکی ہے۔
فیصلے کے وقت ہری پور کی سینٹرل جیل میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے جب کہ جیل کے اطراف پاک فوج کے اہلکار بھی تعینات رہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت نے ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل کا فیصلہ کیا ہے جب کہ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ مشال قتل کیس کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں گذشتہ برس 13 اپریل کو جرنلزم کے 23 سالہ طالب علم مشال خان کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا۔
لندن میں موجود مشال خان کے والد لالہ اقبال نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مشال قتل کے ماسٹرمائنڈ پی ٹی آئی کونسلرعارف کو بھی گرفتارکرنے کا مطالبہ کردیا۔
مشال کے والد کا کہنا تھا کہ جو فیصلہ آیا ہے وہ کافی حد تک ان کے مؤقف کی تصدیق ہے، جن لوگوں کو بری کیا گیا ہے اس حوالے سے ہائی کورٹ سے رابطہ کریں گے اور انصاف کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ اس سے کافی حد تک مطمئن ہیں اور فیصلے کو سراہتے ہیں۔
مشال خان کے والد نے کہا کہ مجرم عمران کو سزائے موت سنائی گئی ہے جس نے مشال خان پر گولیاں چلائی تھیں اور سزائے موت ٹھیک سنائی گئی۔
بعد ازاں جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزاہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے لالہ اقبال کا کہنا تھا کہ 25 افراد کو رہا کر کے پورا انصاف نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کونسلر عارف خان سمیت 3 ملزمان تاحال مفرور ہیں، پتہ نہیں یہ ملزمان پولیس کو ابھی تک کیوں نہیں ملے۔
انہوں نے کہا کہ 13 اپریل کے واقعے کے بعد میری بیٹیاں اسکول اور یونیورسٹی نہیں گئیں، میری بیٹیاں ٹاپ کرتی تھی لیکن دھمکیوں کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں۔
لالہ اقبال نے مزید کہا کہ میرا مشال تو واپس نہیں آ سکتا لیکن میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔
مقتول مشال خان کے بھائی ایمل خان کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ تھا کہ تمام ملزمان کو سزا دی جائے، خیبرپختونخوا پولیس مفرور افراد کو گرفتار کرے۔
فیصلے پر اطمینان سے متعلق سوال پر ایمل خان نے کہا کہ اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد کوئی بیان دیں گے تاہم انہوں نے عمران خان سے اپیل کی کہ وہ صوابی یونیورسٹی کا نام مشال خان کے نام پر رکھنے کا اپنا وعدہ پورا کریں۔
خیال رہے کہ اس کیس کی ستمبر2017 سے جنوری 2018 تک 25 سماعتیں ہوئیں جن میں 68 گواہ پیش ہوئے جب کہ ہری پور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج فضل سبحان نے 27 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کا 23 سالہ نوجوان مشال خان صوابی کا رہائشی اور جرنلزم کا طالب علم تھا۔
گزشتہ سال 13 اپریل کومشتعل ہجوم نے مشال کو توہین مذہب کا الزام لگا کر فائرنگ اور تشدد کرکے ابدی نیند سلادیا۔
واقعے کے دن ہی اس قتل کا مقدمہ درج کیا گیا اور یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت تک کے لئے بند کردیا گیا تھا۔
واقعے کےبعدسپریم کورٹ نےازخود نوٹس لیا اور جے آئی ٹی بھی تشکیل دی گئی۔
جے آئی ٹی نے مشال کوبےقصورقراردیا جب کہ مقدمے میں ویڈیوکی مدد سے 61 ملزمان کونامزدکیاگیا جن میں سے 58 گرفتار ہیں جن میں فائرنگ کا اعتراف کرنے والا ملزم عمران بھی شامل ہے جبکہ پی ٹی آئی کاتحصیل کونسلرعارف ،طلباء تنظیم کا رہنما صابرمایاراوریونیورسٹی کا ایک ملازم اسدضیاء تاحال مفرور ہیں۔
مشال کے قتل کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید تنقید کانشانہ بنایا گیا اور اس کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دینے کے لئے آواز بلند بھی ہوتی رہی۔