08 فروری ، 2018
اسلام آباد: سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کے دوران پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء احتساب عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے تاہم اصل ریکارڈ موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بیان ریکارڈ نہ ہوسکا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر سابق وزیر خزانہ کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ 31 جنوری کو ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران احتساب عدالت نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو اسحاق ڈار کے خلاف بطور گواہ طلب کیا تھا۔
سماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے واجد ضیاء سے استفسار کیا، 'آپ کے پاس جے آئی ٹی رپورٹ نہیں ہے؟
واجد ضیاء نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 'جے آئی ٹی رپورٹ کا اصل ریکارڈ موجود نہیں، تمام ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا تھا'۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا، 'میرے پاس صرف کاپی ہے'۔
جس پر احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیئے کہ 'اصل ریکارڈ کے حصول کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا تھا، دوبارہ یاددہانی کا خط بھجوا دیتے ہیں'۔
ساتھ ہی معزز جج نے کہا کہ واجد ضیاء کا بیان 12 فروری کو ریکارڈ کر لیں گے۔
جس کے بعد واجد ضیاء احتساب عدالت سے روانہ ہوگئے۔
سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں نیب نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے 831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جو مختصر مدت میں 91 گنا بڑھے۔
گذشتہ برس 27 ستمبر کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی تاہم اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار 7 مرتبہ احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوچکے ہیں۔
تاہم بعدازاں مسلسل غیر حاضری پر احتساب عدالت نے 11 دسمبر 2017 کو اسحاق ڈار کو اشتہاری ملزم قرار دے دیا تھا۔
سابق وزیرخزانہ اِن دنوں علاج کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں۔