08 فروری ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے میموگیٹ کیس کی سماعت کے دوران سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے حالیہ بیان کے تناظر میں رجسٹرار آفس سے اس بات کی وضاحت طلب کرلی کہ یہ کیس چار سال بعد کیوں لگایا گیا۔
دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے میموگیٹ کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام پیش ہوئے۔
بیرسٹر ظفر اللہ نے حال ہی میں شائع ہونے والے حسین حقانی کا بیان پڑھ کر سنایا، جس میں انہوں نے پاکستان آنے اور عدالتی اختیارِ سماعت سے انکار کیا۔
بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ 'حسین حقانی نے بیان دیا کہ میموگیٹ دوبارہ کھولنا سیاسی تماشہ ہے'۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'اُس وقت کیا سیاسی تماشے ہوئے، ہمیں علم نہیں'۔
جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ 'حسین حقانی کی واپسی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟'
عدالت عظمیٰ کا مزید کہنا تھا کہ 'حسین حقانی نے 4 دن کےنوٹس پر پیش ہونے کی یقین دہانی کرائی لیکن پوری نہیں کی'۔
چیف جسٹس نے رجسٹرار آفس سے اس بات کی وضاحت طلب کرلی کہ '4 جون 2013 کو میمو کمیشن 4 ہفتے بعد لگانے کا حکم تھا، کیس 4 سال بعد کیوں لگا؟'
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کروائی کہ 'حسین حقانی کی واپسی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی'۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ اور ایف آئی اے سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 5 فروری کو اپنے ایک بیان میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے میمو گیٹ کیس دوبارہ کھولے جانے کو 'سیاسی تماشہ' قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے بعد 4 چیف جسٹس آئے، کسی نےکیس کو ہاتھ نہیں لگایا'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ، 'بابا رحمتے کے کہنے پر پاکستان نہیں آؤں گا، باقی دنیا میں اُن کی نہیں چلتی'۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران میموگیٹ کیس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ حسین حقانی وطن واپس آکر میمو گیٹ کاسامنا کریں۔
سپریم کورٹ نے میموگیٹ کیس میں 24 درخواست گزاروں کو بھی نوٹس جاری کر رکھے ہیں، جن میں سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، عبدالقادر بلوچ، غوث علی شاہ، حسین حقانی، اقبال ظفر جھگڑا، راجہ فاروق حیدر،حفیظ الرحمان، مولوی اقبال حیدر اور شفقت اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں اُس وقت امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کا ایک مبینہ خط (میمو) سامنے آیا تھا۔
حسین حقانی کی جانب سے بھیجے جانے والے میمو میں مبینہ طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے بعد ممکن ہے کہ پاکستان میں فوجی بغاوت ہوجائے۔
میمو گیٹ میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے امریکا سے معاونت مانگی گئی تھی تاکہ حکومت ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو میں رکھ سکے۔
اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ میمو درست ہے اور اسے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔
کمیشن نے کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد امریکی حکام کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ پاکستان کی سول حکومت امریکا کی حامی ہے۔
اس معاملے کو اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف سپریم کورٹ میں لے کر گئے تھے جس کے بعد حکومت نے حسین حقانی سے استعفیٰ لے لیا تھا اور وہ تب سے بیرون ملک مقیم ہیں۔