Time 15 فروری ، 2018
پاکستان

گرفتار گروہ نوجوانوں کو مفت منشیات فراہم کرتا تھا، پولیس

کراچی کے پوش علاقوں میں منشیات کی آن لائن بکنگ کرکے ’ہوم ڈیلیوری‘ دینے والی لڑکی سمیت گروہ کے تمام ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، جن میں لڑکی اور ایک ملزم منشیات کے بھی عادی ہیں۔

ایس ایس پی ساؤتھ جاوید اکبر ریاض نے نمائندہ جیو نیوز کو بتایا کہ گروہ کی سرغنہ لڑکی مہوش عرف سونیا فیس بک پر پوش علاقوں کے بڑے اور مالدار گھرانوں کے لڑکوں سے دوستی کرلیتی تھی جبکہ دیگر ملزمان اپنے مکروہ کاروبار کے لیے فیشن ایبل کم عمر لڑکیوں اور طالبات سے دوستیاں گانٹھتے تھے۔

ملزمان سوشل میڈیا پر دوستیاں کرنے کے بعد پوش علاقوں میں بیٹھک کیلئے مشہور جدید کیفے ٹیریاز اور چائے خانوں پر بیٹھتے اور انہیں منشیات کا عادی بناتے تھے۔

ملزمان اپنے اہداف سے ملاقاتوں کے دوران شروعات میں انہیں مفت میں ’ٹیسٹنگ‘ کیلئے منشیات فراہم کرتے تھے۔

ایس ایس ساوتھ نے بتایا کہ منشیات کا عادی ہونے کے بعد لڑکے لڑکیوں کو من مانے نرخوں پر ہیروئن، کرسٹل، چرس اور آئس سپلائی کرتے تھے۔

ملزمان نے واٹس ایپ گروپ بھی بنا رکھے تھے جن پر آپس میں محفوظ رابطہ کرتے تھے جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے منشیات کی بکنگ کرتے اور پھر پبلک پوائنٹس، کیفے ٹیریاز اور چائے خانوں میں بلوا کر سپلائی دیتے تھے، جبکہ کئی لڑکوں اور لڑکیوں کو ہوم ڈلیوری بھی کرتے رہے ہیں۔

ایس پی جاوید اکبر کے مطابق ملزمان کی فراہم کی گئی منشیات اتنی خطرناک تھی کہ ایک دو دفعہ استعمال کرنے کے بعد مطلوبہ افراد کی اس سے جان چھڑانا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کلفٹن اور ڈیفنس میں یہ صرف ایک گروہ نہیں ہے بلکہ کئی اور گروہ بھی سرگرم ہیں جبکہ کلفٹن کے علاوہ بہادر آباد، پی ای سی ایس ایچ، گلشن اقبال اور دیگر علاقوں میں اس طرح کے گروہ سپلائی دے رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں جاوید اکبر نے بتایا کہ کلفٹن میں ان کے پیچھے بڑے ہاتھوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

پولیس کے مطابق گرفتار ملزمہ مہوش آگسٹن عرف سونیا شاہ فیصل کالونی کے قریب ڈرگ روڈ کی رہائشی ہے جو کراچی کے سینٹ جوزف کالج سے گریجویٹ ہے۔ اسی طرح ملزم عثمان شکیل جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہے۔

ملزم سعد رفیق وفاقی اردو یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری لی۔ مہوش اور شکیل کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ پہلے کسی اور کے ہاتھوں منشیات کے عادی ہوئے اور پھر سپلائر بن گئے۔

پولیس کے مطابق ان کا شکار عموماً نو عمر لڑکے اور لڑکیاں ہوتے ہیں۔ ایس ایس پی جاوید اکبر نے والدین اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے مالکان اور سربراہان کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں چوکنا رہیں۔

انہوں نے کہا کہ گروہ کے بڑے سرغنہ ابھی تک گرفت میں نہیں آئے ان کے مزید ساتھی بھی اس طرح کے دھندوں میں ملوث ہیں۔

ایس ایس پی کے مطابق ملزمان نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ اب تک کئی بڑے خاندانوں کے بچوں اور بچیوں کو منشیات کی لت میں لگا چکے ہیں۔ درخشاں پولیس ملزمان سے مزید تفتیش کر رہی ہے۔

مزید خبریں :