بلاگ
Time 23 فروری ، 2018

بیوروکریٹ کی گرفتاری اور ہلچل

نیب نے احد چیمہ کو 21 فروری کو گرفتار کیا—۔فائل فوٹو

احد چیمہ پکڑا گیا، احد چیمہ کو نیب نے گرفتار کرلیا، احد چیمہ کو ان کے دفتر سے گرفتار کرلیا گیا، یہ آوازیں بیوروکریسی کے ہر ایوان سے اٹھ رہی ہیں۔

پنجاب حکومت کے چہیتے افسر احد چیمہ گریڈ 18 میں ہوتے ہوئے گریڈ 20 کے ڈی سی او لاہور اور ڈی جی لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) جیسے عہدوں پر فائز رہے، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، جوں جوں احد چیمہ جائز نا جائز کام بے چوں چرا کرتے گئے ان کو قانون بالائے طاق رکھ کر ترقی کی سیڑھیاں چڑھایا جاتا رہا۔

حکومت احد چیمہ کی کارکردگی سے اتنا خوش ہوئی کہ ان کو پاور کمپنی کا سربراہ بنا کر 15 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ کے علاوہ لاکھوں کی مراعات سے نواز دیا گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ احد چیمہ کی بدعنوانی کی داستانیں بیورو کریسی میں افسران سے لے کر چپڑاسی تک ہر شخص کی زبان پر آنے لگیں لیکن حکومت پنجاب نے کان نہ دھرنے تھے اور نہ دھرے۔ 

لیکن وہ ہوگیا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے معاملات سامنے آنے پر نیب نے احد چیمہ کو گرفتار کرلیا۔

ترجمان نیب کے مطابق احد چیمہ نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کی الاٹمنٹ میں 32 کنال اراضی رشوت کے طور پر لی اور اس زمین کی قیمت ایک ہاؤسنگ کمپنی کے اکاؤنٹ سے ادا کی گئی۔ ڈائریکٹر جنرل لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی حیثیت سے احد چیمہ نے اربوں روپے کے ٹھیکے ایک کمپنی کو دے دیے۔ اب احد چیمہ عدالتی ریمانڈ پر نیب کے زیرتفتیش ہیں، دیکھتے ہیں کہ مزید کتنی بدعنوانی کی داستانیں نکلتی ہیں۔

لیکن احد چیمہ کیا پکڑا گیا بیوروکریٹس کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی اور ہر طرف کھلبلی سی مچ گئی۔ اعلیٰ افسران تمام کام چھوڑ کر حکمت عملی طے کرنے کے لیے اجلاسوں میں لگ گئے۔

احد چیمہ کے گرفتار ہوتے ہی چیف سیکرٹری پنجاب کی سربراہی میں دربار ہال میں ایک اجلاس ہوا، جس میں یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب حکومت افسران کے تحفظ میں ناکام رہی ہے، پھر دوسری میٹنگ سول آفیسرز میس میں ہوئی۔ اگلے روز تیسرا اجلاس سیکرٹریٹ میں ہوا جس میں احد چیمہ کو قانونی مدد فراہم کرنے کے ساتھ ان کے گھر کی دیکھ بھال کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں۔ بیوروکریٹس نے ایک قرارداد منظور کی، چیف سیکرٹری کی سربراہی میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی اور یہ قراداد شہباز شریف کو پیش کی جس پر انہوں نے کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا۔

حیرانگی اس بات کی ہے کہ ملاقات میں آئی جی پنجاب بھی شریک ہوئے جبکہ فورس سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی افسر یا اہلکار احتجاج نہیں کرسکتا، افسوس یہ ہے کہ احد چیمہ کے پکڑے جانے پر جن افسران کے سر شرم سے جھک جانے چاہیے تھے وہ اس کی بدعنوانیاں چھپانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینے میں مصروف ہو گئے۔ شاید اب انہیں ڈر ہو کہ اگر انہوں نے شور نا ڈالا تو کہیں ان کی باری بھی نہ آجائے۔

بیوروکریٹس احد چیمہ کی گرفتاری کے خلاف تو سرگرم ہیں لیکن کسی چھوٹے افسر، پٹواری، کانسٹیبل، کلرک یا چپڑاسی کی نیب یا اینٹی کرپشن کے ہاتھوں گرفتاری پر کبھی ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کیوں کہ وہ اپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر جو تصور کرتے ہیں۔

چیف سیکرٹری پنجاب زاہد سعید کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں افسران نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اس صورت حال میں کام نہیں کرسکتے اور انہیں کام بند کردینا چاہیے۔ افسران نے قانونی ٹیم تشکیل دی اور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی، ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے بھی فوری کیس سنا اور ڈی جی نیب لاہور سے وضاحت طلب کرلی۔

سوال یہ ہے کہ کیا اب ایسا بھی ہوگا کہ کوئی منظورِ نظر پولیس افسر یا پولیس سروس آف پاکستان کا کوئی اعلیٰ افسرا پکڑا گیا تو پولیس والے بھی ہڑتال کا سوچیں گے؟ کیا اب ہڑتالیں اور دھرنے کرکے حکومتی اہلکار اور اعلیٰ افسران اپنی بدعنوانی چھپائیں گے؟

بدعنوانی جاننے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بس ایک نظر ان بیوروکریٹس اور اعلیٰ افسران کے طرزِ زندگی پر ڈالنے سے سب سمجھ آ جاتا ہے۔ یہی نہیں حکومتی خرچے پر چار چار قیمتی گاڑیاں ان کے اہلخانہ کے زیر استعمال ہوتی ہیں۔ چوکیدار، مالی، خانسامہ سمیت کئی سرکاری ملازمین ان کے گھر والوں کی خدمت پر مامور ملیں گے۔

اربوں ڈالر قرضے کے بوجھ تلے ملک کی بیوروکریسی کو کیا یہ سب زیب دیتا ہے؟ کیا عوام کے پیسوں پر یہ عیاشی ہی ان کی کرپشن کے لیے کافی نہیں ہے؟ ان افسران کا احد چیمہ کی گرفتاری کی آڑ لے کر اکٹھے ہونے کا مقصد اپنی بدعنوانی کو بے نقاب ہونے سے بچانے اور اس پر پردہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اعلیٰ افسران کو احد چیمہ کے پکڑے جانے کی فکر کے بجائے مزید افسران کے نام سامنے آنے کا ڈر کھائے جا رہا ہے کیونکہ احد چیمہ کی آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں ہونے والی بدعنوانی کے الزامات کے علاوہ کرپشن کے مزید کیسز بے نقاب ہو سکتے ہیں۔ احد چیمہ کو رشوت میں دی جانے والی 32 کنال اراضی کا پیسہ ادا کرنے والی نجی ہاؤسنگ اسکیم کے پس پردہ ایک معروف سیاستدان کا نام بھی سامنے آسکتا ہے، اسی کیس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد بھی نیب میں پیش ہوچکے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ بیوروکریٹس کو خدشہ ہے کہ کہیں احد چیمہ وعدہ معاف گواہ بن کر دوسرے افسران اور سیاست دانوں کے لیے مشکلات نہ پیدا کردیں۔

احد چیمہ کا پکڑے جانا وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے لیے بھی لحمہ فکریہ ہے، وزیراعلیٰ جو خود بدعنوانی کے سخت خلاف ہیں اور کوشش میں رہتے ہیں کہ کرپٹ افسران اور اہلکاروں کو نا صرف کیفر کردار تک پہنچایا جائے بلکہ ایسے افسران سے دور رہا جائے۔

میاں شہباز شریف کو چاہیے کہ جو افسران کسی بدعنوان افسر کی حمایت میں اکٹھے ہوں،  ان کے خلاف سخت ایکشن لے کر ان کو عہدوں سے فارغ کر دیں۔ کیا افسران کا یہ کام ہے کہ وہ کسی ایسے افسر کا ساتھ دیں جس پر کرپشن کے سنگین الزامات ہوں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیف سیکریٹری سمیت دیگر افسران اپنے درمیان سے کرپٹ افسران کو خود نیب کے حوالے کردیتے نا کہ اس کو بچانے کے لیے خود میدان میں کود پڑیں۔

میری ناقص رائے میں اگر بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کاوشوں اور کوششوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کا سلسلہ نہ رکا تو خدانخواستہ ہمارے پیارے وطن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بیوکریسی ہو یا ارکان پارلیمنٹ، حکومتی ایوانوں میں براجمان وزراء ہوں یا حزب اختلاف کے رہنما سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ بدعنوانی کے ناسور سے چھٹکارہ حاصل کیے بغیر ترقی ممکن نہیں۔

پاکستان ہے تو ہم ہیں اور اس کی ترقی میں ہی ہم سب کی کامیابی ہے۔ کرپشن ایک دیمک کی مانند ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور اس کے فوری خاتمے میں ہی ہم سب کی بہتری ہے۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔