نقیب قتل کیس: معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو کراچی پہنچا دیا گیا


اسلام آباد: نقیب اللہ محسود قتل کیس میں نامزد معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو اسلام آباد سے کراچی منتقل کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کے حکم پر سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار راؤ انوار کو اسلام آباد پولیس نے سخت سیکیورٹی میں بینظیر بھٹو انٹر نیشنل ایئر پورٹ پہنچایا۔

اسلام آباد پولیس نے بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر راؤ انوار کو سندھ پولیس کے حوالے کیا جہاں سے نجی ایئرلائن کی پرواز این ایل 126 کے ذریعے انہیں کراچی کے لیے روانہ کیا گیا۔

چیف جسٹس کی جانب سے نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی 5 رکنی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان بھی اسی پرواز کے ذریعے کراچی پہنچے۔


ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ دوسری نجی پرواز کے پہلے ہی کراچی پہنچ چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق پولیس اہلکار راؤ انوار کو کراچی ایئرپورٹ کے رن وے کے ایپرن سے لے کر روانہ ہوئے اور راؤ انوار کو سلور رنگ کی گاڑی میں لے جایا گیا۔

ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ ایس ایس پی ملیر عدیل چانڈیو سمیت اعلیٰ پولیس افسران بھی کراچی ایئرپورٹ پر موجود تھے اور راؤ انوار کو سخت سیکیورٹی میں ملیر کینٹ تھانے منتقل کر دیا گیا ہے۔

راؤ انوار کو انسداد دہشت گردی عدالت میں آج پیش کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے نقیب قتل کیس میں نامزد معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو کئی بار طلب کیا تھا لیکن اس کےباوجود وہ پیش نہیں ہوئے تھے۔

گزشتہ روز چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر راؤ انوار کا کوئی سہولت کار نکلا تو سخت کارروائی ہوگی جب کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ راؤ انوار خود سے پیش ہوجائیں تو بہتر ہے۔

راؤ انوار کی پیشی

سپریم کورٹ میں نقیب اللہ قتل کیس از خود نوٹس کی سماعت کے سلسلے میں راؤ انوار کو آج پھر طلب کیا گیا تھا جس پر وہ عدالت میں پیش ہو گئے۔

معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو  اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری میں اچانک سپریم کورٹ لایا گیا جب کہ انہوں نے چہرے پر ماسک لگا رکھا تھا۔

راؤ انوار ماسک لگاکر عدالت آئے: اسکرین گریب جیونیوز

راؤ انوار کو سفید رنگ کی گاڑی میں سپریم کورٹ لگایا گیا اور اس موقع پر عدالت کے اطراف سیکیورٹی سخت تھی۔

کیس کی سماعت

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں نقیب اللہ قتل کیس از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے آغاز پر راؤ انوار کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا ہے۔

قانون کے سامنے سرنڈر کرکے ہم پر احسان نہیں کیا: چیف جسٹس

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے قانون کے سامنے سرنڈر کرکے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے معطل ایس ایس پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جس دلیری سے آپ رہ رہے تھے اور جو خط آپ نے لکھے اس پر حیرت ہے، جو خط لکھے گئے ہیں ان کا تاثر درست نہیں۔

راؤ انوار عدالت میں خاموش رہے

جسٹس ثاقب نثار نے راؤ انوار سے استفسار کیا کہ اتنے دن کہاں تھے؟ کیوں نہیں آئے؟ ہم نے موقع فراہم کیا تو کیوں نہیں سرنڈر کیا۔

اس پر راؤ انوار عدالت کے سامنے خاموش کھڑے رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔

سپریم کورٹ نے راؤ انوار کی حفاظتی ضمانت مسترد کردی

راؤ انوار کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل حفاظتی ضمانت چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کوئی حفاظتی ضمانت نہیں دے رہے اور گرفتاری کے احکامات جاری کررہے ہیں۔


جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کمیٹی بنارہے ہیں، راؤ انوار کو جوکچھ کہنا ہے وہ اس کے سامنے جاکر کہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ اتنے دلیر ہوگئے، عدالت کے سامنے سرنڈر نہیں کیا، مہلت دی پھر بھی نہیں آئے۔

عدالت نے آئی جی سندھ سے انکوائری کمیٹی کے ممبران کی تفصیلات بھی طلب کی۔

راؤ انوار کے وکیل کا سندھ پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار

راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ انہیں سندھ پولیس سے اختلاف ہے کیونکہ پولیس ان کے مخالف ہوگئی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس طرح آپ کی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی، آپ اس پولیس کے ملازم ہیں اور وہی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی۔

معطل ایس ایس پی کے وکیل نے استدعا کی کہ کمیٹی میں ایجنسیز کو شامل کیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سی ایجنسی کو شامل کیا جائے؟

راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی کو کمیٹی میں شامل کیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس سیدھا سیدھا ہے ان کا تفتیش سے کیا تعلق؟ مجھے معلوم ہے آپ یہ کس وجہ سے کہہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور کسی کا اثر نہیں لیتی۔

راؤ انوار سے تفتیش کیلئے پولیس کی 5 رکنی جے آئی ٹی تشکیل

عدالت نے کیس کی سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کیا اور وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت کا آغاز کرتے ہوئے راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس غیر منجمد کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے راؤ انوار کے وکیل کی جانب سے تفتیش کے لیے جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

عدالت نے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی جس میں چار اعلیٰ پولیس افسران ولی اللہ دل، آزاد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر رضوان کو شامل کیا گیا ہے۔

راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں بدستور شامل

سپریم کورٹ نے راؤ انوار کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس خارج کردیا تاہم ان کا نام ای سی ایل میں برقرار رکھا گیا ہے جب کہ معطل ایس ایس پی کی گرفتاری کے احکامات نقیب اللہ قتل کیس میں جاری کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار کے کیس کی تحقیقات آزادانہ ہوں گی، کیس کو کراچی ٹرانسفر کردیا جائے گا جب کہ کسی طرح کی عدالتی آبزرویشن اس کیس کو متاثر نہیں کرے گی۔

نقیب اللہ کے اہلخانہ سے راؤ انوار کو نقصان نہ پہنچانے کا حلف نامہ لیا گیا

کیس کی سماعت کے موقع پر نقیب اللہ کے بزرگ عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ یقین دہانی کرائیں کہ محسود قبیلے کی طرف سے راؤ انوار کی جان کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔

عدالت نے نقیب اللہ کے اہل خانہ سے راؤ انوار کو نقصان نہ پہنچانے کے لیے حلف نامہ بھی لیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تحقیقات ہونے تک راؤ انوار کو حفاظت میں رکھا جائے، وہ جب تک سندھ پولیس کی حراست میں ہیں ان کی حفاظت پولیس کی ذمہ داری ہے۔

راؤ انوار کو ایس ایس پی سیکیورٹی نے احاطہ عدالت سے گرفتار کیا

عدالت عظمیٰ کی جانب سے راؤ انوار کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جانے پر ایس ایس پی سیکیورٹی نے انہیں احاطہ عدالت سے گرفتار کیا۔

سپریم کورٹ سے گرفتاری کے بعد سندھ پولیس نے راؤ انوار کو اپنی تحویل میں لے لیا اور انہیں سخت سیکیورٹی میں ریڈ زون میں سیکیورٹی ڈویژن منتقل کردیا گیا جہاں سے انہیں پہلی دستیاب فلائٹ سے کراچی منتقل کیا جائے گا۔

نقیب اللہ کے والد کی میڈیا سے گفتگو

راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نقیب اللہ کے والد نے کہا کہ عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، عدالت پر بھروسہ ہے کہ انصاف یہیں سے ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ نقیب پاکستان کا بیٹا تھا، پاکستان کے تمام ادارے ہمارا فخر ہیں، ہم پر امن لوگ ہیں کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

نقیب اللہ کے وکیل کی میڈیا سے گفتگو

نقیب اللہ کے والد کے وکیل فیصل صدیقی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ راؤ انوار کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ دیگر اداروں کے افسر بھی جے آئی ٹی میں لیے جائیں، ان کے وکیل نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کا نام لیا لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی اور سندھ پولیس کےافسران پر مشتمل نئی جے آئی ٹی بنائی ہے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ جے آئی ٹی کے لیے ٹائم فریم نہیں دیا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد عدالت آرڈر کرے گی۔

نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟

13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔

بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر از خود نوٹس لیا گیا تھا۔

مزید خبریں :