19 مارچ ، 2018
اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
عدالت کے حکم پر آئی جی سندھ نے مفرور پولیس افسر راؤ انوار کی اسلام آباد اور کراچی ایئرپورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج پر ان کیمرہ بریفنگ دی جس کا ایک سیشن دوپہر اور دوسرا سیشن شام کو ہوا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ راؤ انوار کو ایئرپورٹ پر کس نے سہولت دی اور کس نے ان کے پاس جاری کیے جس پر انہوں نے بتایا کہ ایئرپورٹ پر نجی ایئرلائن کے بورڈنگ پاس جاری ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر معلوم ہوا کہ راؤ انوار کا کوئی سہولت کار ہے تو سخت کارروائی ہوگی، ملزم عدالت میں پیش ہوجائے تو بچ جائے گا۔
عدالت نے نجی ایئرلائن کے متعلقہ حکام کو بھی طلب کرلیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے گورنر اسٹیٹ بینک سے استفسار کیا کہ 'کیا راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے اور کیا ان کی تنخواہ اکاؤنٹ میں آرہی ہے' جس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ ملزم کے 2 بینک اکاؤنٹس تھے جنہیں منجمد کردیا گیا ہے جب کہ ان کی تنخواہ آرہی ہے لیکن وہ نکلوا نہیں سکتے۔
آئی سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے اسلام آباد ایئرپورٹ کے ذریعے راؤ انوار کی ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی سی سی ٹی وی فوٹیج پر سپریم کورٹ کو بریفنگ دی۔
آئی جی سندھ کی بریفنگ کا پہلا حصہ دوپہر 3 بجے مکمل ہوگیا تھا جبکہ دوسرا حصہ شام میں مکمل ہوا۔
ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر جنرل ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) میجر جنرل علی عباس حیدر اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو ان کیمرہ بریفنگ دی۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر راؤ انوار کو ملک سے فرار کرانے کی کوشش میں معاونت کے حوالے سے سپریم کورٹ کو دی جانے والی بریفنگ میں چیئرمین نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) عثمان مبین اور ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی موجود تھے۔
بعد ازاں نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ کراچی رجسٹری میں ہونے والی گزشتہ سماعت پر عدالت نے مفرور راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے 2 دن کی مہلت دیتے ہوئے آئی جی سندھ کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ملزم کے بیرون ملک فرار ہونے کے شواہد نہیں ملے اور آئندہ 2 سے تین روز میں پیش رفت ہوگی جس پر عدالت نے انہیں 2 روز کی مہلت دیتے ہوئے آج رپورٹ طلب کی تھی۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔