اعضاء کا عطیہ — آرٹ کے ذریعے آگاہی پھیلانے کی کوشش

پاکستان میں جہاں کچھ لوگ اعضاء کوعطیہ کرنے کے مخالف ہیں، وہیں کچھ اس کے حق میں بھی ہیں اور اس حوالے سے اپنے اپنے طور پر کوششوں میں مصروف ہیں۔

کہتے ہیں آرٹ کی اپنی ہی ایک زبان ہوتی ہے، جس کی مدد سے کسی بھی خیال، تصور یا کام کو بیان کرنا آسان ہوتا ہے اور جب آرٹ کے ذریعے کسی خاص مقصد کو اجاگر کیا جائے تو لوگوں تک وہ پیغام مزید سہل انداز میں پہنچتا ہے۔

ایسا ہی ایک تصور 'اعضاء کا عطیہ' (organ donation) بھی ہے، جو اگرچہ نیا نہیں ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے، جہاں لوگ موت کے بعد اپنے اعضاء مثلاً آنکھیں یا دل وغیرہ ان مریضوں کو عطیہ کردیتے ہیں، جنہیں زندہ رہنے کے لیے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔

تاہم پاکستان میں اس نظریئے کے فروغ  اور اسے رائج ہونے میں اس لیے مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انسان کا جسم اللہ رب العزت کی امانت ہے، لہذا اس امانت میں خیانت کرتے ہوئے انسان اپنا کوئی عضو کسی دوسرے کو عطیہ نہیں کرسکتا۔

ایک طرف جہاں کچھ لوگ اعضاء کو عطیہ کرنے کے مخالف ہیں، وہیں کچھ لوگ اس کے حق میں بھی ہیں اور اس حوالے سے اپنے اپنے طور پر کوششوں میں مصروف ہیں۔

ان ہی میں سے ایک کراچی سے تعلق رکھنے والی حیا فاطمہ اقبال بھی ہیں، جو حبیب یونیورسٹی میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی 'کمیونیکیشن فار سوشل چینج' کا کورس پڑھاتی ہیں۔

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے سربراہ پروفیسر ادیب رضوی چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اعضاء عطیہ کرنے کے لیے ان کے ڈیٹا بیس میں خود کو رجسٹر کروائیں۔

حال ہی میں حیا نے اپنے کچھ طلبہ کے ساتھ مل کر 'دی فیئرلیس کلیکٹو' (The Fearless Collective) نامی مہم کے اشتراک سے کراچی کی دیواروں کو خوبصورت بنانے کا کام شروع کیا۔

دی فیئرلیس کلیکٹو، جنوبی ایشیائی خواتین کی جانب سے شروع کی گئی ایک مہم ہے، جس کا مقصد عوامی مقامات پر خواتین کی شمولیت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے 9 آرٹسٹ شامل ہیں، جو عوامی مقامات پر کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر اپنی کہانیوں کو پینٹنگز کی مدد سے بیان کرتے ہیں۔

فوٹو/ بشکریہ حیا فاطمہ اقبال—۔

حیا اور ان کے طلبہ بھی اپنے آرٹ کو اعضاء عطیہ کرنے کی مہم کو پھیلانے کے لیے بروئے کار لائے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی اور سول اسپتال کے قریب ایک دیوار کا انتخاب کیا اور وہاں اعضاء کے عطیات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے دیوار پر پینٹنگز بنائیں۔

فوٹو/ بشکریہ حیا فاطمہ اقبال—۔

انہوں نے بتایا 'ہمارا مقصد یہ تھا کہ دیوار پر آرٹ کے ذریعے کس طرح سے بات ہوسکتی ہے، بنانے والے تو کہیں بھی چلے جاتے ہیں لیکن وہ دیوار، وہ پیغام وہیں رہتا ہے'۔

حیا فاطمہ کے مطابق 'آتے جاتے لوگوں نے گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں روک کر ہمیں یہ کام کرتے دیکھا اور سراہا'۔

کچھ لوگوں نے اس حوالے سے بھی سوال کیا کہ کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے؟

حیا کے مطابق لوگوں کے اس سوال پر مختلف فتوؤں کے حوالوں کے ذریعے انہیں اس مہم کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں بتایا گیا، جس کے بعد ان میں سے کچھ نے اس سسٹم میں انٹری کروانے کا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'جب مرنا ہی تو ہے کسی کی مدد کرکے مرنے میں کیا مسئلہ ہے؟'

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے سربراہ پروفیسر ادیب رضوی تو کافی عرصے سے اس اہم مقصد کے لیے دن رات کوشاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اعضاء عطیہ کرنے کے لیے ان کے ڈیٹا بیس میں خود کو رجسٹر کروائیں۔

حیا نے بتایا کہ 'ایس آئی یو ٹی اپنے طور پر نہایت اچھا کام کر رہا ہے اور ڈاکٹر ادیب رضوی چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے ڈیٹابیس میں رجسٹر کروائیں لیکن ان کا یہ پیغام درست انداز سے پہنچ نہیں پا رہا، لہذا ہم نے سوچا کہ اپنے آرٹ، اپنی پینٹنگز کے ذریعے اس پیغام کو اجاگر کیا جائے'۔

فوٹو/ بشکریہ حیا فاطمہ اقبال—۔

انہوں نے بتایا کہ دیوار پینٹ کرنے سے پہلے جب ہم ایس آئی یو ٹی گئے تو ہمارے ذہن میں بھی یہی سوال تھا کہ اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے ہمارے مذہب میں کیا حکم ہے؟

حیا کے مطابق ایس آئی یو ٹی میں ہمیں اپنے تمام سوالات کا جواب فتوؤں کے ایک مجموعے کی صورت میں دکھایا گیا، جس میں اعضاء کے عطیے کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کے علماء کے فتوے موجود تھے۔ کسی کے نزدیک 'جان بچانے کے لیے اعضاء عطیہ کرنا جائز ہے' تو کچھ کا ماننا ہے کہ 'اعضاء عطیہ کرنا جائز ہے لیکن فروخت کرنا حرام ہے' تو کسی کے نزدیک 'یہ امر افضل ہے'، الغرض کوئی بھی اسے غلط نہیں کہتا۔

فوٹو/ بشکریہ حیا فاطمہ اقبال—۔

اگر اعضاء عطیہ کرنا غلط نہیں ہے تو اس کا رجحان کم کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں حیا نے بتایا کہ ہماری نئی نسل یا نوجوان یہ کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں اپنے والدین کو اس بات کے لیے راضی کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں یہ تصور اپنے والدین کو سمجھانے میں وقت لگے گا۔

حیا نے بتایا کہ 'ہم ڈاؤ لیب کی ایک دیوار پینٹ کر رہے تھے، لیکن اس سے ملحقہ سول اسپتال کے ایک ایکسرے ٹیکنیشن کو بھی یہ نہیں پتہ تھا کہ اعضاء عطیہ کرنے کے ڈیٹا بیس میں اپنا اندراج کیسے کیا جاسکتا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

حیا نے بتایا کہ ہمارے اس پروجیکٹ کا مقصد یہ ہے کہ صرف طلبہ ہی نہیں، دیگر لوگ بھی کسی پیغام کو ایک بڑی دیوار پر پینٹ کریں اور پھر جب انہیں یہ کرنا آجائے تو وہ اپنے اپنے علاقے، اپنے سرکل، اپنے دوست احباب میں اسے فروغ دیں۔

ان کا کہنا تھا، 'بس کام شروع کرنے کی دیر ہوتی ہے، پینٹ اور بالٹیاں دینے والے خود آجاتے ہیں'۔

حیا اور ان کے طلبہ کی ٹیم—۔فوٹو/ بشکریہ حیا فاطمہ