ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق رام چندر جی نے کوہِ ایلم کی چوٹی ’جوگیانو سر‘ میں اپنی محبوب بیوی سیتا کے ساتھ پورے تین سال مراقبے میں گزارے ہیں
18 اپریل ، 2018
سوات کو قدرت نے بلاشبہ فطری حسن کے ساتھ ساتھ تاریخ کے حوالہ سے بھی بڑی فیاضی کے ساتھ نوازا ہے، مگر جب فطری حسن اور تاریخ کا ایک مقام پر سنگم ہوتا ہے۔
تو بقولِ فراز
’نشہ بڑھتا ہے، شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘
’مشتے نمونہ از خروارے‘ کے مصداق ایسا ہی ایک مقام ’املوک درہ سٹوپہ‘ ہے، جہاں فطری حسن اور تاریخ بانہوں میں بانہیں ڈالے دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ فطری حسن ایسا جو ہر خاص و عام کو انگشتِ بدنداں کردے اور تاریخ ایسی کہ ’’رگِ تحریر‘‘ پھڑکا دے۔
ضلع سوات کی تحصیل بریکوٹ کے مقام پر ایک سڑک ضلع بونیر کی طرف مڑتی ہے، وہاں بائیں جانب ایک اور سڑک ایلم پہاڑ کی طرف مڑتی ہے جو پکی ہے اور اس پر ہر قسم کی گاڑی سٹوپہ تک باآسانی رسائی دلاتی ہے۔
ایلم کے قدموں میں چاروں اُور سے لہلہاتے کھیتوں، پھلوں کے باغات اور چھوٹی بڑی پہاڑیوں میں بڑی شان سے کھڑا تیسری صدی عیسوی کا شاندار ’املوک درہ سٹوپہ‘ دور سے دکھائی دیتا ہے۔
علاقہ کے بڑے بوڑھوں کے بقول کسی زمانے میں املوک درہ میں بڑی مقدار میں املوک جسے اردو میں جاپانی پھل کہتے ہیں، کے باغات ہوا کرتے تھے، اس لیے اس پورے درے کا نام مذکورہ پھل ’املوک‘ کی نسبت سے ’املوک درہ‘ پڑ گیا۔
مرورِ ایام کے ساتھ شفتالو (آڑو) کی مانگ بڑھی اور رفتہ رفتہ املوک یہاں سے نایاب ہوتا گیا، آج اگر یہاں ’املوک‘ کا اِکا دُکا درخت نظر بھی آئے، تو غنیمت ہوگی۔ آج ’املوک درہ‘ گویا ’شلتالو درہ‘ (شلتالو، پشتو زبان میں شفتالو یا آڑو کو کہتے ہیں) بن گیا ہے۔
اس طرح دیو قامت ایلم پہاڑ کی اپنی ایک تاریخ ہے، ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق رام چندر جی نے کوہِ ایلم کی چوٹی ’جوگیانو سر‘ میں اپنی محبوب بیوی سیتا کے ساتھ پورے تین سال مراقبے میں گزارے ہیں۔
اس لیے شورش سے پہلے اس واقعے کی یاد میں ہر سال منعقد ہونے والے میلے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے سکھ اور ہندو یاتری سوات بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے۔
سطحِ سمندر سے ایلم کی بلندی 9200 فٹ ہے۔ اس کی چوٹی پر واقع ’جوگیانو سر‘(جوگیوں کی چوٹی) یا ’یوگس پیک‘ وہ مقام ہے جہاں رام چندر جی اور سیتا میا نے بن باس لیا تھا اور پورے تین سال گزارے تھے۔
املوک درہ سٹوپا مکمل طور پر ایک سیاحتی مقام میں شان سے کھڑا ہے۔ سٹوپا کے ارد گرد لہلہاتے کھیت، کھیتوں میں خود رَو گلِ لالہ اور دیگر جنگلی پھولوں کا من بھاتا نظارہ، قبلہ رو دیوقامت پہاڑ ایلم سے نکلتی ہوئی میٹھے پانی کی بل کھاتی ندی اور روائتی گاؤں کا ماحول رہی سہی کسر پوری کردیتا ہے۔
سٹوپہ پر پہلی نظر پڑتی ہے، تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ املوک درہ میں داخل ہوتے وقت سٹوپہ کی پشت پر نظر پڑتی ہے، تو اولین گمان یہی گزرتا ہے کہ سٹوپہ محفوظ حالت میں موجود ہے، مگر جیسے ہی آدمی آہستہ آہستہ سامنے آتا ہے، تو اس کا کلیجہ کو منھ کو آجاتا ہے، کیوں کہ سامنے سے سمگلروں نے اسے بری طرح سے نقصان پہنچایا ہے۔
سوات میں ایک عرصہ سے آثارِ قدیمہ پر کام کرنے والے فضل خالق اپنی کتاب ’دی اڈی یانا کنگ ڈم: دی فورگاٹن ہالی لینڈ آف سوات‘ کے صفحہ نمبر 54 پر لکھتے ہیں کہ تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے بدھ مت دور کے اس عظیم سٹوپہ کو پہلی دفعہ سال 1926ء میں سر اُورل سٹائن نے دریافت کیا تھا۔
اس کا بعد میں 1960ء کی دہائی میں اطالوی ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر فسینا نے مطالعہ کیا اور پھر اٹلی حکومت کی مدد سے آرکیالوجی کلچر ٹوورازم (اے سی ٹی) پروجیکٹ کے تحت املوک درہ سٹوپہ کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی کی، نتیجتاً سٹوپے کے متصل بدھ مت دور کا ایک کمپلیکس دریافت ہوا۔ اس کمپلیکس میں سیڑھیاں بڑی نفاست کے ساتھ نیچے اُترتی ہیں۔
اسی کتاب کے صفحہ نمبر 54 پر مصنف آگے رقم کرتے ہیں: ’ڈاکٹر لوکا الیوری کے مطابق املوک درہ سٹوپہ گندھارا کے علاقہ میں اچھی حالت میں موجود ہے۔ یہ سٹوپہ تیسری صدی عیسوی سے 11 ویں صدی عیسوی تک کار آمد رہ چکا ہے، تاحال سوات میں 90 فیصد بدھ مت کے مقامات تاراج ہوچکے ہیں‘۔
دوسری طرف سٹوپہ کے احاطہ میں لگے بورڈ میں سٹوپا کو دوسری صدی عیسوی تا گیارھویں صدی عیسوی رقم کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر لوکا ستمبر 1987 ء سے آثارِ قدیمہ کے حوالہ سے کھدائیوں اور ان پر تحقیق کے حوالہ سے سرگرم ہیں، ان کی خدمات کے عوض صدرِ پاکستان ممنون حسین انہیں ستارۂ امتیاز سے بھی نواز چکے ہیں۔
ڈاکٹر لوکا نے سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ قدیم ادھیانہ سلطنت ’سوات‘ ہی تھا، جو وجریانہ بدھ ازم کا منبع تھا۔ ڈاکٹر لوکا کو دورِ حاضر میں ادھیانہ (قدیم سوات) کے نمایاں اساتذہ میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
فضل خالق کے بقول ڈاکٹر لوکا دعویٰ کرتے ہیں کہ ’چینی زائر ’’ہیون سانگ‘‘ (جو ساتویں صدی عیسوی میں سوات کے علاقے سے گزر چکے ہیں) بھی املوک درہ سٹوپہ کا دورہ کرچکے ہیں، مگر بدقسمتی سے ان کے لکھے گئے سفرنامے کا ترجمہ کما حقہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم اب پروفیسر ’میکس ڈیگ‘ مذکورہ سفرنامے کا ترجمہ کر رہے ہیں، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا‘۔