02 مئی ، 2018
اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں گرفتار 3 ملزمان خالد شمیم، معظم خان اور محسن علی سید پر فرد جرم عائد کردی گئی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے اڈیالہ جیل میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے عدالت میں چالان پیش کیا۔
چالان کے متن کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن میں 16 ستمبر 2010 کو قتل کیا گیا اور اس قتل کی سازش برطانیہ اور پاکستان میں مشترکہ طور پر تیار ہوئی۔
سماعت کے بعد عدالت نے تینوں گرفتار ملزمان پر فردم جرم عائد کردی۔
عدالت نے بانی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیئے اور ان کی جائیداد بحق سرکار ضبط کرنے اور پاکستانی شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم بھی جاری کردیا۔
بعدازاں عدالت نے سماعت 8 مئی تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کے 2 گواہوں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) شعیب اور ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرارزم ونگ کے عبدالمنان کو آئندہ سماعت پر طلبی کے سمن جاری کردیئے۔
عمران فاروق قتل کیس
50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے، انہوں نے سوگواران میں اہلیہ اور دو بیٹوں کو چھوڑا تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی موت چاقو کے حملے کے نتیجے میں آنے والے زخموں کی وجہ سے ہوئی تھی۔
ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک اور ملزم کاشف خان کامران کی موت ہو چکی ہے۔