انسٹی ٹیوٹ آف کیلاش کلچر ایند ٹریڈیشن میں زیادہ تر اساتذہ رضاکارانہ طور پر کیلاشہ زبان میں بچوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں.
14 مئی ، 2018
چترال کی وادی کیلاش میں ایک اسکول ایسا بھی ہے، جہاں نصاب کے ساتھ ساتھ بچوں کو ان کی ثقافت اور مذہب کے بارے میں ان ہی کی زبان میں سکھایا جارہا ہے۔
کیلاش کے علاقے بمبوریت میں واقع اس اسکول کے اخراجات اسی عمارت میں قائم محکمہ آثار قدیمہ خیبرپختونخوا کے مقامی عجائب گھر سے ہونے والی آمدنی سے پورے کیے جاتے ہیں۔
وادی کیلاش کے بچے تعلیم اور روایات سے دور ہوئے تو کچھ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مل کر بمبوریت میوزیم میں ایک اسکول قائم کیا، جسے 'انسٹی ٹیوٹ آف کیلاش کلچر ایند ٹریڈیشن' کا نام دیا گیا ہے۔
اس اسکول میں کیلاشہ زبان میں نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو کیلاش ثقافت اور مذہب سے بھی روشناس کرایا جا رہا ہے۔
ایک طالبہ شمائلہ نے بتایا کہ اسے پڑھنے کا بہت شوق ہے اور بڑے ہو کر وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔
چیئرمین کیلاش کلچر اینڈ ٹریڈیشن اسکول عمران کبیر نے بتایا کہ 'ہمیں بہت دیر بعد عقل آئی کہ کیلاشی بچوں کو ان کے کلچر اور مذہب کے بارے میں سکھانا چاہیے، انہیں عام سائنسی نظریات ان کی زبان میں سمجھانا چاہئیں تاکہ بچے سمجھ سکیں'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'ان بچوں کی زبان کیلاشی ہے، اگر ان کو انگریزی اور اردو میں سکھائیں گے تو ان کو سمجھ نہیں آئے گی۔'
اسکول میں زیادہ تر اساتذہ رضاکارانہ طور پر بچوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں، جہاں پرائمری سے دسویں جماعت تک تقریباً 200 طلبا زیر تعلیم ہیں۔
واضح رہے کہ یہ اسکول 2007 میں قائم کیا گیا تھا جبکہ اس عمارت میں واقع میوزیم یونان کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے 2000 میں قائم ہوا تھا۔
اسکول کے اخراجات محکمہ آثار قدیمہ کے بمبوریت میوزیم سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پورے کیے جاتے ہیں۔ اس میوزیم میں کیلاش قبیلے کی قدیم اشیاء محفوظ ہیں۔
ہاتھوں سے بنی ان اشیاء کا ایک اسٹال اسکول کے احاطے میں لگایا گیا ہے۔ ان اشیاء کو طالب علم اور ان کے گھر والے تیار کرتے ہیں اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ان بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کی جاتی ہے۔
ایک سیاح محمد مصطفیٰ کے مطابق 'میوزیم بہت اچھا ہے اور انہوں نے یہاں بہت سی چیزیں دیکھیں'۔
کیلاشی ثقافت کو زندہ رکھنے کی کوششیں
ایک روایت ہے کہ چترال کی وادی کیلاش میں آباد تہذیب کے باسی افغانستان کے راستے سکندر اعظم کے ساتھ یہاں آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
صدیاں بیت گئیں، دنیا نے ترقی کرلی، رہن سہن کے طریقے بدل گئے، لیکن اس تہذیب کے ماننے والے نہ بدلے۔ ان کا منفرد لباس اور طرزِ زندگی آج بھی سیاحوں کے لیے دلچسپی سے بھرپور سامان ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کیلاش کی نسل اور ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے خیبرپختونخواہ کے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے ایک منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے۔
ماہر آثار قدیمہ نواز الدین نے بتایا کہ 'ایک ریسرچ کے مطابق وادی کیلاش 323 قبل از مسیح میں آباد ہوئی۔ یہ لوگ سکندر اعظم کے ساتھ یہاں آئے اور سخت موسمی حالات کے پیش نظر یہاں سے نکل نہیں پائے اور پھر یہیں آباد ہوگئے جبکہ ایک دوسری ریسرچ کے مطابق پانی اور سبزے کے باعث یہاں آبادی ہوئی'۔
کیلاش قبیلے کی آبادی 4 ہزار کے لگ بھگ ہے، یہ وادی بمبوریت، رمبور اور بریر پر مشتمل ہے اور روایتی لباس یہاں کی خواتین کی شناخت ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ خیبرپختونخواہ کا تین سالہ منصوبہ 6 کروڑ مالیت کا ہے، واضح رہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی سطح پر اس قبیلے کی بحالی کے لیے کوئی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت تین قدیم گھروں کی تزئیں و آرائش کی جارہی ہے، جبکہ بمبوریت کے 7سو سالہ قدیم قبرستان کی توسیع بھی کی جائے گی، جس کے لیے اضافی زمین لی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں پہلے سے موجود تابوتوں کو ترتیب سے رکھ کر سیاحوں کے لیے راستہ بنایا جائے گا تاکہ قبروں کی بے حرمتی بھی نہ ہو، جبکہ مذہبی تہواروں کے لیے ڈانسنگ ہالز میں بھی توسیع کی جارہی ہے۔
اس منصوبے کا خیال اسی قبیلے کے ایک نوجوان وزیر زادہ کے ذہن کی پیداوار ہے۔
وزیر زادہ نے بتایا کہ 'علاقے میں فیسٹیول کی جگہ نہیں تھی، جب فیسٹیول کو دیکھنے سیاح آتے تھے تو جگہ کم پڑ جاتی تھی۔ اسی طرح قبرستان ختم ہو رہے تھے اور مردے دفنانے کی جگہ کم پڑتی جارہی تھی۔ ہم نے پروپوزل دیا اور حکومت نے مخصوص فنڈز دیئے جس سے قبرستان اور فیسٹیول کی زمین خریدی جارہی ہے'۔
فیلڈ آفیسر محکمہ آثار قدیمہ خیبرپختونخواہ اور چترال میوزیم کے انچارج سید گل کیلاش نے بتایا کہ 'بمبوریت قبرستان 7 سو سال پرانا ہے، پہلے یہاں مُردوں کو کھلی فضاء میں ان کی اشیاء کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا تھا، تاہم 80 سالوں سے یہاں مردے دفنائے جارہے ہیں، جن کی بہت سے وجوہات ہیں، لیکن اب منصوبے کی تکمیل سے بہت سے مسائل حل ہوں گے'۔