ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف نے 128 میں سے 55 سوالات کے جواب دے دیے


اسلام آباد: ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128  میں سے 55 سوالات کے جواب ریکارڈ کرادیے جس کے بعد سماعت کل صبح تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ 

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنس کی سماعت کی، اس موقع پر نامزد تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

احتساب عدالت نے تینوں ملزمان سے 128 سوالات پر مشتمل سوالنامے کا جواب طلب کیا تھا، آج سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم نواز شریف نے پہلے سوال میں اپنے عوامی عہدوں کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔

سابق وزیراعظم نے تقریباً 4 گھنٹے تک اپنا بیان قلمبند کرایا جس کے دوران انہوں نے 128 میں سے 55 سوالات کے جواب دیے اور وہ کل بھی اپنا بیان جاری رکھیں گے۔ 

نواز شریف نے سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق فیصلے اور جے آئی ٹی کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دیا اور عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کے لکھے گئے باہمی قانونی معاونت (ایم ایل ایز) کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے۔

نواز شریف نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ 'میری عمر 68 سال ہے، میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔

نوازشریف نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی لیکن مجھے جے آئی ٹی کے ممبران پر اعتراض تھا اور یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا جب کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے یہ حق دیتا ہے'۔

سابق وزیراعظم کا جے آئی ٹی ممبران پر اعتراض

نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبران کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی ظاہر ہے جس کے ممبران میں بلال رسول سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے بھانجے ہیں جو (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف تنقیدی بیانات دے چکے ہیں۔ 

سابق وزیراعظم نے کہا کہ بلال رسول کی اہلیہ تحریک انصاف کی سرگرم کارکن بھی ہیں۔

سابق وزیراعظم نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے اپنے کزن کے ذریعے تحقیقات کرائیں جب کہ تحقیقات میں ان کی جانبداری عیاں ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ 'جے آئی ٹی ممبر عامر عزیز بھی جانبدار ہیں جو سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں جب کہ وہ پرویز مشرف دور میں میرے اور فیملی کے خلاف نیب ریفرنس نمبر 5 کی تحقیقات میں شامل رہے'۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی کے ایک اور رکن عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے جنہیں جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا'۔

سابق وزیراعظم نے ایک اور اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا، موجودہ سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کے اثرات جے آئی ٹی رپورٹ پر پڑے۔

نواز شریف نے کہا کہ سول ملٹری تناؤ پاکستان کی تاریخ کے 70 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے، پرویز مشرف کی مجھ سے رقابت 1999 سے بھی پہلے کی ہے جنہوں نے جے آئی ٹی رکن عامر عزیز سے حدیبیہ پیپر ریفرنس میں ہمارے خلاف تحقیقات کرائیں۔ 

نواز شریف نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف علاج کے بہانے بیرون ملک گئے اور اس وقت خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کے خلاف سنگین غداری کیس کے بعد تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا۔

سابق وزیراعظم نے کہا ' ڈان لیکس کی وجہ سے سول ملٹری تناؤ میں اضافہ ہوا اور میری اطلاعات کے مطابق بریگیڈیئر نعمان سعید ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کا حصہ تھے جب کہ جے آئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان سعید آئی ایس آئی میں نہیں تھے، انہیں آؤٹ سورس کیا گیا کیونکہ ان کی تنخواہ بھی سرکاری ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتی۔

نواز شریف نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے حکم کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے فیصلے سے میرا شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیے کہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جاسکے، سپریم کورٹ کی طرف سے ایسے اختیارات غیر مناسب اور غیر متعلقہ تھے'۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی کی 10 والیم پر مشتمل رپورٹ خود ساختہ اور غیر متعلقہ تھی جو ناقابل قبول شہادت پر مبنی ہے، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔

سابق وزیراعظم نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کیے گئے اس لیے ان کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے۔

نواز شریف نے کہا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور اس موقع پر اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتا، میں معصوم ہوں، میرے خلاف کیس میں کوئی ثبوت نہیں۔

حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق جواب

سابق وزیراعظم نواز شریف نے حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق اپنے جواب میں کہا کہ مجھے پرویز مشرف کے دور آمریت میں جلا وطن کر دیا گیا اور زیادہ عرصہ باہر رہنے کے سبب حدیبیہ پیپر ملز کے طویل مدتی قرض کا علم نہیں۔ 

نواز شریف نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کے معاملات میرے مرحوم والد دیکھتے تھے جب کہ جے آئی ٹی میں طارق شفیع کے جمع کرائے گئے حلف نامے کا عینی شاہد نہیں ہوں۔

جے آئی ٹی کی تفتیش یکطرفہ تھی جس نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں، نواز شریف

سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش یکطرفہ تھی جس نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں، جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لئے بنائی گئی تھی، ریفرنس کے لئے نہیں۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا جانبدار تھے اور اُنہوں نے اپنے کزن اختر راجا کو سولیسٹر مقرر کیا جنہوں نے جھوٹی دستاویزات تیار کیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے تجزیے کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہا تھا، ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ جے آئی ٹی کے ریکارڈ کردہ بیان کا مخصوص حصہ والیم 2 میں ری پروڈیوس کیا جب کہ استغاثہ نے غیر مستند شواہد پیش کیے۔

نواز شریف نے کہا کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب کے پاس ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا، جس نے جے آئی ٹی کی کاپی کے لیے درخواست کی اس پر سنجیدہ سوالات اٹھے اور  اُسے شامل تفتیش یا گواہ نہیں بنایا گیا۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ تفتیش نہیں ہوئی کہ والیم 4 عدالت میں جمع ہونے کے بعد نئی دستاویزات اس میں کب اور کیسے شامل کیے گئے اور یہ شواہد نہیں ہیں کہ کیس کا ریکارڈ کب، کیسے اور کس نے اکٹھا کیا۔

رابرٹ ریڈلے انتہائی دلچسپ گواہ ثابت ہوا، نواز شریف

سابق وزیراعظم نواز شریف نے نیب کے گواہ رابرٹ ریڈلے سے متعلق کہا کہ وہ انتہائی دلچسپ گواہ ثابت ہوا جس نے غیر ضروری جلد بازی میں رپورٹ تیار کی اور اس کی رپورٹ جانبدار، متعصب اور یک طرفہ تھی۔

نواز شریف نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری کے لیے کیلبری فونٹ استعمال کیا گیا، رابرٹ ریڈلے کے مطابق یہ فونٹ 31 جنوری 2007 تک کمرشل نہ تھا جب کہ رابرٹ ریڈلے کی رائے تھی کہ اس سے پہلے کیلبری فونٹ کا استعمال نہیں ہوسکتا تھا۔

نواز شریف نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی کیلبری فونٹ کے استعمال سے متعلق رائے بدنیتی پر مبنی تھی جس نے جرح کے دوران اعتراف کیا کہ 2005 میں کیلبری فونٹ دستیاب تھا اور اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ خود بھی ڈاؤن لوڈ کر کے اس فونٹ کو استعمال کر چکا ہے۔

مذکورہ کیس کی 18 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر وکیل صفائی خواجہ حارث نے ملزمان کو دیئے گئے سوالنامے پر اعتراض کردیا تھا، جس پر عدالت نے آخری چانس دیتے ہوئے کہا تھا کہ 21 مئی کو ملزمان کے بیانات قلمبند ہوں گے۔

یاد رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور وہ اپنا بیان قلمبند کروا چکے ہیں۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں وکیل صفائی خواجہ حارث کی جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح جاری ہے، جس کی آئندہ سماعت منگل 22 مئی کو ہوگی۔

کیس کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔

العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔

جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔

مزید خبریں :