25 مئی ، 2018
روالپنڈی: ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی کو 28 مئی کو جی ایچ کیو طلب کیا جارہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کتاب اسپائی کرانیکل پر اسد دارنی سے منسوب خیالات پر وضاحت کیلئے انہیں بلایاگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ تمام حاضر اور ریٹائرڈ فوجیوں پر لاگو ہوتا ہے اور کتاب میں ان سےمنسوب خیالات اس کی خلاف ورزی ہے۔
اس سے قبل سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر اسد درانی کی کتاب پر فوج کو تحفظات ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے موضوعات حقائق کے برعکس بیان کی گئے ہیں۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ملک اور قانون سے بالاتر نہیں، ایک بروقت اور زبردست اقدام اٹھایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ملٹری ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اسد درانی کو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی اور یوں عسکری قیادت نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اگر پاک فوج کا کوئی سابق افسر بھی ملکی مفاد کے خلاف کوئی بات کرے گا تو اس کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی سابق 'را' چیف اے ایس دلت کے ساتھ مل کر لکھی گئی کتاب 'دی سپائے کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس' میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اہم معاملات پر بات کی ہے۔
کتاب میں جن معاملات پر روشنی ڈالی گئی، اُن میں کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا آپریشن، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
اس کتاب پر پاکستان کی سیاسی قیادت نے سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسددرانی کی کتاب پرقومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ قومی سانحات اور سلامتی سے متعلق معاملات پر انکوائری کے لیے قابل اعتبار قومی کمیشن بنایا جائے ، ملک میں ایک وقت میں دو تین حکومتیں نہیں چل سکتیں۔
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے دو سابق سربراہوں کی کتاب 'دی سپائے کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس' کی اشاعت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ کتاب کسی سویلین یا سیاستدان نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو اس پر 'غدار' کا فتویٰ لگا دیا جاتا۔
خیال رہے کہ جنرل (ر) اسد درانی اگست 1990 سے مارچ 1992 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے ہیں اور انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر حساس معاملات پر کتاب لکھی ہے۔
اس کتاب کی رونمائی گزشتہ دنوں بھارت میں کی گئی ہے تاہم نئی دہلی میں ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے اسد درانی کو بھارت کا ویزہ بھی نہیں ملا تھا۔
اصغر خان کیس میں بھی رواں ماہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے طلب کیے جانے پر سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
1990 میں اسلامی اتحاد کی تشکیل اور انتخابات میں دھاندلی کے لیے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔
مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔