پیپلز پارٹی کی سندھ میں 10 سالہ حکومتی کارکردگی پر ایک نظر

10 سال کے دوران کھربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن عوام کا معیار زندگی بہتر نہ ہوسکا۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو 10 سال مکمل ہوگئے جس کے دوران کھربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن عوام کا معیار زندگی بہتر نہ ہوسکا اور پانی، صحت، تعلیم سمیت کئی شعبوں کے متعدد منصوبے بھی مکمل نہ کیے جاسکے۔

سندھ حکومت جاتے جاتے کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ اور تھر سمیت صوبے کے کئی اضلاع میں صحت، تعلیم، زراعت، آبپاشی، کھیل، سوشل ویلفیئر سمیت 44 محکموں کے 2200 سے زائد ترقیاتی منصوبے ادھورے چھوڑ گئی جن کی لاگت 5 لاکھ 77 ہزار 12 ملین روپے ہے۔ 

پیپلز پارٹی کی حکومت نے نئے مالی سال میں نئی اسکیمیں تو شامل نہیں کیں البتہ 2012 سے 2017 کے تمام منصوبے ادھورے پڑے ہیں اور کسی منصوبوں پر تو کام ہی شروع نہیں کرایا جاسکا۔

بجٹ تفصیلات کے مطابق دس سال کے دوران سینکڑوں ترقیاتی اسکمیں ایسی ہیں جو مکمل نہ کی جاسکیں جن میں لوکل گورنمنٹ کی 394 اسکیمیں بھی شامل ہیں جن کی مجموعی لاگت 27900 ملین روپے ہے، اِن میں کراچی کی 100 سے زائد اسکیمیں ایسی ہیں جو مکمل نہیں ہوسکیں جب کہ حیدرآباد، بے نظیر آباد، لاڑکانہ، بدین، جیکب آباد، ٹنڈو محمد خان، گھوٹکی، کشمور،ٹھٹہ اور مٹیاری سمیت دیگر اضلاع کے منصوبے بھی مکمل نہیں کیے جاسکے۔

سانگھر، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہيار، گھوٹکی اور مٹياری ميں 9 سال بعد بھی پبلک اسکول قائم نہ ہوسکے، 2008 میں 500 سے زائد اسکولوں کی اپگريڈيشن کی منظوری ہوئی لیکن تاحال ایسا کچھ نہ ہوا، چانڈکا ميڈيکل کالج کے لیے 50 بيڈز والا سرجيکل آئی سی یو وارڈ بھی تاحال قائم نہ ہوسکا۔

حیدرآباد کے لیاقت یونیورسٹی اسپتال میں 50 بیڈز کا آئی سی یو بھی مکمل نہ ہوسکا، ٹھٹھہ کے واٹر سپلائی اسکيم کی 2013 ميں منظوری ہوئی ليکن تاحال شہریوں کو پانی نہ ملا۔

دوسری جانب سندھ حکومت کے ذرائع کے مطابق صحت کے شعبے میں حکومت نے سکھر، حیدرآباد، سیہون، نوابشاہ اور ٹنڈو محمد خان میں امراض قلب کے نئے اسپتال قائم کیے جہاں مریضوں کا مفت علاج کیا جا رہا ہے، اسی طرح 28 ڈگری کالج اور 50 اسکولوں کو جامع /کیمرج سسٹم سے منسلک کیا گیا ہے۔

سندھ کے مختلف اضلاع ميں اسمال انڈسٹريز اپگريڈيشن کے منصوبوں پر بھی عمل نہ ہوسکا۔ بجٹ اعداد و شمار کے مطابق 2000 سے زائد منصوبوں میں ایسے منصوبے بھی شامل ہیں جو 2012 سے 2017 کے دوران ہر سال منظور کیے گئے لیکن تاحال مکمل نہ ہوسکے۔

پانچ سالوں کے بجٹ کے اعداد و شمار کے علاوہ فنانس کمیشن ایوارڈ کی مد میں ملنے والے اربوں روپے بھی خرچ کیے گئے لیکن نہ تو منصوبے مکمل ہوسکے اور نہ ہی مختلف شعبوں میں بہتری نظر آئی۔

لاڑکانہ میں پيرا ميڈيکل انسٹی ٹیوشن کی منظوری 2012 ميں ہوئی ليکن کام تاحال شروع نہ ہوا، محکمہ ورکس اينڈ سروسز کی سڑکيں اور عمارتيں تعمير کرنے کے ڈيڑھ سو منصوبے بھی تاحال نامکمل ہيں۔

لوکل گورنمنٹ محکمے کے صرف 102 منصوبے ایسے ہیں جو اب تک مکمل نہیں کیے جاسکے، جامشورو میں اربوں روپے کے فلائی اوورز تاحال مکمل نہیں کیے جاسکے، جن میں کوٹری فلائی اوور اور جامشورو پھاٹک فلائی اوور شامل ہے۔

محکمہ تعلیم میں ترقیاتی پروگرام کی مد میں 309 اسکیمیں مکمل نہیں کی جاسکیں جن کی مجموعی لاگت 72228 ملین روپے ہے۔

محکمہ زراعت کے 35 منصوبے بھی آبادگاروں کو منہ چڑا رہے ہیں جن کی لاگت 9088 مختص ہے، صحت کے 169 منصوبے بھی ادھورے پڑے ہیں جن کی لاگت 48110 ملین روپے رکھی گئی تھی۔ 

محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف کے 10 منصوبوں کے لیے 1851 ملین رکھے گئے ہیں، یونیورسٹی اور بورڈز کے لیے 39 منصوبوں پر 19401 ملین روپے رکھے گئے تھے۔

کراچی کے 7300 ملین روپے سے بننے والے میگا پروجیکٹ کی 17 اسکیمیں بھی مکمل نہ ہوسکیں، انڈسٹریز اینڈ کامرس کی 2226 ملین روپے کی 10 اسکیمیں، انفارمیشن اینڈ آرکائیو کی 300 ملین کی 11 اسکیمیں، انفارمیشن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی 3233 ملین کے 15 منصوبے بھی مکمل نہ ہوسکے۔

لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کی 9031 ملین کے 44 منصوبے، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی 16 منصوبوں پر 8616 ملین مختص ہیں جب کہ پبلک ہیلتھ انجیئرنگ اور دیہی ترقی کے 199 منصوبے مکمل نہیں کیے جاسکے جن کی لاگت 23121 ملین روپے ہے۔

یوتھ افیئر اینڈ اسپورٹس کے 10 منصوبے نامکمل ہیں جن کی لاگت 3566 ملین لگائی گئی تھی، ورکس اینڈ سروسز کے 348 منصوبے بھی مکمل نہ کیے جاسکے جن کی لاگت 73916 ملین ہے۔

تھر کول انفراسٹرکچر کے لیے 14 منصوبے بھی سندھ حکومت مکمل نہ کرسکی جس پر 6690 ملین مختص کیے گئے تھے لیکن یہ منصوبے بھی ادھورے پڑے ہیں۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق 2226 منصوبوں پر 507712 ملین روپے مختص ہیں اور یہ منصوبے مکمل نہیں کیے جاسکے جبکہ نئی اسکیموں کے لیے 50000 ملین روپے مختص کیے ہیں، 25000 ملین سندھ کے اضلاع میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیئے گئے جن کی اسکمیں سندھ بھر منتخب نمائندوں کے حلقوں کی عوام سے لی جاتی لیکن پیپلزپارٹی کے سوا اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنےوالے بیشتر نمائندوں کے حلقوں میں کروڑوں روپے کی اسکیمیں نہیں لی گئیں۔

مزید خبریں :