01 جون ، 2018
لاہور: سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ایک ذیلی کمیٹی بنا کر بھاگ گئی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی خصوصی بینچ نے لاہور رجسٹری میں اصغر خان فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔
آج سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان کی جگہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں کیا فیصلہ ہوا؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ نے مثبت فیصلہ کرلیا ہے اور اٹارنی جنرل پیش ہوکر عدالت کو آگاہ کریں گے۔
اشتر اوصاف کے پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'اتنا اہم کیس لگا ہوا ہے، لیکن اٹارنی جنرل کو پروا نہیں'۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'وفاقی کابینہ نے اصغر خان کیس عملدرآمد کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا، کئی سالوں سے یہ کیس پڑا ہے، کیا کابینہ کا یہ کام ہوتا ہے'؟
ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 'ایک سب (ذیلی) کمیٹی بنا کر حکومت بھاگ گئی'۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف کو کل (2 جون کو) طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ روز اصغر خان کیس پر کابینہ کا اجلاس نہ بلانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو کل شام تک کی مہلت دی تھی۔
تاہم وفاقی کابینہ نے اپنے آخری اجلاس میں اصغر خان کیس پر عملدرآمد سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کے بارے میں کوئی بھی حتمی حکم یا ہدایت دینے سے گریز کرتے ہوئے قرار دیا کہ عدلیہ، پراسیکیوشن اور انویسٹی گیشن کے ادارے اپنی کارروائی میں آزاد ہیں اور متعلقہ ادارے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔
کابینہ اجلاس کی صدارت کرنے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کابینہ سے متعلق نہیں اور نہ ہی وہ اس کو آئندہ حکومت پر چھوڑنے کی بات کرسکتے ہیں۔
اصغر خان کیس
1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔
اس حوالے سے ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔
خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔
پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔
اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔
سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔
مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ کے آغاز میں وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی کریں۔