اصغرخان کیس: کابینہ اجلاس نہ بلانے پر چیف جسٹس برہم، حکومت کو آج شام تک کی مہلت


لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اصغر خان کیس پر کابینہ کا اجلاس نہ بلانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو آج شام تک کی مہلت دے دی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے لاہور رجسٹری میں اصغر خان فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) بشیر میمن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اس حوالے سے انکوائری جاری ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کابینہ نے اصغر خان کیس سے متعلق اب تک کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا؟

جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ کابینہ کا اجلاس بلانے کے لیے مہلت دی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور حکومت کو کوئی فکرنہیں۔

ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے اصغر خان کیس سے متعلق آج شام تک کابینہ کا اجلاس بلاکر فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آج ہی اس فیصلے سے آگاہ کیا جائے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو اصغرخان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے آج تک فیصلے کے بعد کوئی ایکشن نہیں لیا، صرف ایف آئی اے نے تحقیقات کی لیکن ایک جگہ پر یہ تحقیقات بھی رک گئیں۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے اصغر خان کیس عملدرآمد کا معاملہ حکومت پر چھوڑتے ہوئے حکم دیا تھا کہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

اصغر خان کیس ہے کیا؟

1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔

اس حوالے سے ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔

خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔

پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔

سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔

مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔


مزید خبریں :