لیاری میں سائیکلنگ کرتی باہمت ’رمشاء راحین‘

کھیلوں کی اسی بستی میں ایک باہمت لڑکی "رمشاء راحین"بھی ہے جو کہ سائیکلنگ کا شوق اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں

جیسے کراچی کی قدیم بستیوں کا ذکر لیاری کے بغیر کبھی مکمل نہیں، اسی طرح شہر قائد میں کھیلوں کا ذکر بھی لیاری کے بغیر نہ ممکن ہے۔

لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہاں کے لوگوں نے انتہائی مشکل وقت دیکھا، محنت کشوں اور ہنر مندوں کی اس بستی نے کراچی کو مایہ ناز شخصیات اور کھلاڑی دیئے۔

مگر ماضی میں لیاری میں گینگ وار کے بڑھتے اثرورسوخ نے جہاں نوجوانوں اور بچوں کی تعلیم پر گہرا اثر ڈالا وہیں یہاں کھیلوں کی سرگرمیاں بھی کافی حد تک متاثر ہوئیں۔

تاہم کراچی آپریشن کے بعد سے لیاری کے حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں اور وہاں کی گلیوں کی رونق اب لوٹ رہی ہے۔

لیاری کے نوجوان نہ صرف برازیل اور ارجنٹائن کی فٹبال ٹیموں سے محبت کرتے ہیں بلکہ خود بھی بہت اچھا فٹبال کھیلتے ہیں لیکن لیاری کی پہچان صرف فٹبال نہیں ہے بلکہ وہاں آپ کو باکسنگ سمیت دیگر کھیلوں کے شوقین بھی نظر آئیں گے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ شوق صرف لڑکوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں لیاری کی لڑکیاں بھی پیش پیش ہیں۔

 لیاری کی باہمت لڑکیاں سائیکلنگ کرتے ہوئے — فوٹو: راوی 

کھیلوں کی اسی بستی میں ایک باہمت لڑکی "رمشاء راحین"بھی ہے جو کہ سائیکلنگ کا شوق اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں۔ بچپن سے سائیکلنگ کے اس شوق نے اسے اس قدر متاثر کئے رکھا کہ اس نے فیصلہ کیا کہ لیاری کی نوجوان لڑکیوں اور بچیوں کو بھی سائیکلنگ کی باقاعدہ تربیت دے کر لیاری کو ایک الگ پہچان دی جائے۔

اس اقدام میں مقامی این جی او (ارادو) لیاری گرلز کیفے نے اسے پلیٹ فارم فراہم کیا جہاں یہ لڑکیوں کو سائیکلنگ سکھا رہی ہیں۔

رمشاء  12 ویں کلاس میں پری میڈیکل کی طالبہ ہے اور 19 سال کی عمر میں کامیابی کی کئی منازل طے کر چکی ہیں۔ رمشاء کا کہنا ہے کہ وہ میڈیکل کی پڑھائی تو جاری رکھےہوئے ہیں کیونکہ انہیں والدہ ڈاکٹر بنانا چاہتی ہیں تاہم یہ ان کا ارادہ نہیں ہے۔

لیاری میں باہمت لڑکیاں سائیکل چلا رہی ہیں — فوٹو: راوی 

رمشاء کو اوکسفرڈ یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی میں لیکچرار کی پوسٹ میں دلچسپی ہے وہیں اس کے دیگر مشاغل میں جرنلزم، فوٹوگرافی، شاعری، تقاریر و مباحثہ اور سائیکلنگ نمایاں ہیں۔

رمشاء نے دس سال کی عمر میں سائیکل چلانا شروع کی اسی دوران اس نے پڑھائی میں ہونے والے خلل کی وجہ سے اسے کچھ عرصے کے لئے سائیکلنگ چھوڑ دی۔

رمشاء کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کے پاس 20 کے قریب لڑکیاں سائیکل چلانےکی تربیت حاصل کر رہی ہیں جن میں 10 سال سے لے کر 25 سال تک کی عمر کی لڑکیاں سیکھنے آتی ہیں ۔

— فوٹو: راوی 

رمشاء کا کہنا ہے کہ جب اس نے اور اس ساتھی سائیکلسٹس نے پہلی بار سڑک پر سائیکل چلائی تو انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کچھ لوگوں نے ان کے اس اقدام کو بے حد نا پسند کیا اور طنز کا بھی نشانہ بنایا ۔

تاہم فیملی کے اعتماد اور معاشرے میں موجود مثبت سوچ رکھنے والے افراد کی جانب سے دی گئی ہمت نے ان کے اس شوق میں نئی جان ڈالی۔

رمشاء کا مزید کہنا ہے کہ ’’ایک وقت ایسا بھی آیا جب میری والدہ نے سائیکل چلانے سے روکا مگر پھر امی نے میری ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔‘‘

رمشاء کے مطابق ان کی والدہ ان کے ہر فیصلے پر سپورٹ کرتی ہیں اور وہ آج جو کچھ بھی ہیں اپنی والدہ کی محنت کی وجہ سے ہی ہیں۔

لیاری میں مقامی این جی او (ارادو) کی جانب سےحال ہی میں پہلی بار سائیکل ریس کرائی گئی جس میں 20 لڑکیوں نے حصہ لیا۔ اس مقابلے میں رمشاء راحین نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

— فوٹو: روای 

رمشاء راحین نے بتایا کہ انہوں نے لیاری سے باہر کبھی سائیکلنگ نہیں کی لیکن اگر موقع ملا تو وہ ضرور لیاری سے باہر بھی سائیکل چلائیں گی، وہ کہتی ہیں کہ لیاری میں لڑکیوں کیلئے سائیکل چلانا خاصا مشکل کام ہے مگر انہیں اس مشکل کام میں مزہ آتا ہے۔

رمشاء راحین نے بتایا کہ جس دن انہوں نے سائیکل چلانا شروع کی اس جملے کو بہت پیچھے چھوڑ آئے کہ "لوگ کیا کہیں گے"۔

رمشاء راحین کا کہنا تھا کہ انہوں نے سائیکل چلانا اس لئے بھی شروع کی اس اقدام کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کیا جا سکتا ہے اور دیکھا جائے تو پٹرولیم مصنوعات میں روز بروز ہوتے اضافے سے بھی نمٹا جا سکتا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ سے ہونےوالی دشواریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

رمشاء راحین نے کہاکہ اگر تمام لڑکیاں یونیورسٹیز، کالجز میں جانے کے لئے سائیکل کا استعمال کریں تو اس سے معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی اور لوگ اپنی فٹنس کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔