اگرچہ مسلم لیگ (ن) 51 فیصد ووٹ بینک کے ساتھ مقبولیت میں دیگر جماعتوں سے آگے ہے تاہم 2013 کے مقابلے میں اس کے ووٹ بینک میں محض 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
04 جولائی ، 2018
اسلام آباد: صوبہ پنجاب کے حلقوں کی بنیاد پر کیے گئے سروے کے نتیجے میں یہ سامنے آیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف جاری کرپشن ٹرائل، اہم رہنماؤں کی نااہلی اور نام نہاد الیکٹیبلز کی وفاداریاں تبدیل ہونے کے باوجود صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت برقرار ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ (ن) 51 فیصد ووٹ بینک کے ساتھ مقبولیت میں دیگر جماعتوں سے آگے ہے تاہم 2013 کے مقابلے میں اس کے ووٹ بینک میں محض 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب اس کے برعکس پی ٹی آئی کی مقبولیت میں 2013 کے 19 فیصد کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ سروے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینیئن ریسرچ (آئی پی او آر) کی جانب سے رواں برس 15 اپریل سے 2 جون کے دوران کیا گیا۔
اس سروے کے سلسلے میں صوبے سے 200,349 افراد سے سوالات کیے گئے، جس میں جواب دینے کی شرح 72 فیصد سے زائد تھی۔
پنجاب کی قومی اسمبلی کے تمام 141 حلقوں میں سے ہر حلقے میں 1420 افراد نے سروے میں حصہ لیا، یہ سروے اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ اس طرح کے دیگر سروے میں شامل جواب دہندگان کی تعداد عموماً 3 ہزار سے 4 ہزار کے درمیان ہوتی ہے۔
سروے کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) ووٹرز کی 5:3 کی شرح کے ساتھ پی ٹی آئی سے آگے ہے۔ جواب دہندگان میں سے زیادہ تر نے بتایا کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران صوبے میں لوڈ شیڈنگ میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی، ساتھ ہی انہوں نے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی کارکردگی پر بھی اعتماد کا اظہار کیا۔
تاہم جواب دہندگان نے 3 اہم مسائل کی جانب بھی نشاندہی کی، جن میں پینے کے صاف پانی تک رسائی، گیس اور سیوریج کے مسائل شامل ہیں۔ دوسری جانب صحت، تعلیم، بیروزگاری اور کرپشن نے جواب دہندگان کی ترجیحات کی فہرست میں سب سے نیچے جگہ بنائی۔
سروے کے نتائج میں اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ پی ٹی آئی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو اچھا خاصا متاثر کیا، جو اب 2013 کے 11 فیصد کے مقابلے میں محض 5 فیصد رہ گیا ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنما پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کو نئے ووٹس کا بھی حقدار قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ حالیہ مردم شماری کے بعد 20 ملین کے قریب نئے ووٹرز فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔
دوسری جانب تحریک لبیک 3 فیصد ووٹ بینک کے ساتھ صوبے کی چوتھی بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسلامی 1 فیصد ووٹ بینک کے ساتھ فہرست میں باقی جماعتوں سے پیچھے ہیں۔
انتہائی باصلاحیت وزیراعلیٰ سمجھنے والے شہباز شریف بھی کارکردگی کے حوالے سے عوام کو کچھ زیادہ متاثر نہ کرسکے اور اس سوال کے جواب میں کہ 'گزشتہ 5 برسوں کے دوران وہ شہباز شریف کی حکومت کی کارکردگی کو کیسا دیکھتے ہیں'؟ صرف 28 فیصد جواب دہندگان نے اسے بہت اچھا قرار دیا، 48 فیصد نے اسے اوسط، 13 فیصد نے بری اور 7 فیصد نے بہت بری قرار دیا۔تاہم 64 فیصد جواب دہندگان اپنے متعلقہ اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے کرائے گئے ترقیاتی کاموں سے مطمئن نظر آئے اور 63 فیصد نے اراکین صوبائی اسمبلی کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔
تاہم حیرت انگیز طور پر یہ تصور غلط ثابت ہوا کہ تحریک انصاف نوجوانوں، خصوصاً خواتین میں بہت مقبول جماعت ہے اور سروے کے نتائج سے یہ ثابت ہوا کہ مسلم لیگ (ن) ہی نوجوانوں/ خواتین میں مقبول ہے۔
سروے میں شامل کُل جواب دہندگان میں سے 46 فیصد 26 سے 40 سال کی عمر کے درمیان تھے، جن میں سے 24 فیصد نے خود کو مسلم لیگ (ن) کا حامی بتایا جبکہ 14 فیصد نے پی ٹی آئی کی حمایت کی۔
سروے میں شامل 18 سے 25 سال کی عمر کے جواب دہندگان کی تعداد 23 فیصد تھی، جن میں سے 11 فیصد نے خود کو مسلم لیگ (ن) کا حامی بتایا جبکہ پی ٹی آئی کے حامی محض 8 فیصد تھے۔
دوسری جانب سروے میں شامل 41 سے 50 سال کی عمر کے 17 فیصد جواب دہندگان میں سے 9 فیصد مسلم لیگ (ن) کے حامی نکلے اور صرف 5 فیصد نے تحریک انصاف کو سپورٹ کیا۔
اگر صنف کے حوالے سے دیکھا جائے تو 34 فیصد خواتین اور 17 فیصد مردوں نے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی جبکہ 22 فیصد مرد اور 8 فیصد خواتین پی ٹی آئی کی حامی نکلیں۔
جب جواب دہندگان سے ان کے حلقے میں موجود سب سے اہم مسئلے کے حوالے سے پوچھا گیا تو 17 فیصد نے پینے کے پانی اور گیس اور 16 فیصد نے سیوریج کی نشاندہی کی۔
وہ تین ڈویژنز جہاں کے لوگوں نے پینے کے پانی کو اہم مسئلہ قرار دیا، ان میں بالترتیب بہاولپور (28 فیصد)، ساہیوال (25 فیصد) اور راولپنڈی (22 فیصد) شامل ہیں۔
جن ڈویژنز میں گیس سب سے اہم مسئلہ رہا، ان میں راولپنڈی (22 فیصد)، فیصل آباد (19 فیصد) اور گجرانوالہ (19 فیصد) شامل ہے جبکہ جن علاقوں میں سیوریج کو اہم مسئلہ قرار دیا گیا، ان میں ملتان (22 فیصد)، سرگودھا (21 فیصد) اور فیصل آباد (19 فیصد) شامل ہیں۔
اگرچہ صحت، تعلیم، بیروزگاری اور کرپشن پاکستانیوں کے اہم مسائل سمجھے جاتے ہیں تاہم صرف 3 فیصد افراد نے صحت، تعلیم اور بیروزگاری کو اہم مسئلہ قرار دیا جبکہ ایک فیصد جواب دہندگان ایسے تھے، جن کے نزدیک کرپشن ہر مسئلے کی جڑ اور سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دوسری جانب صرف 8 فیصد نے لوڈ شیڈنگ کو بڑا مسئلہ قرار دیا۔
ایک اور سوال کے جواب میں 67 افراد نے بتایا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ان کے حلقے میں لوڈ شیڈنگ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے، 24 فیصد نے بتایا کہ لوڈشیڈنگ میں کوئی کمی نہیں ہوئی جبکہ 8 فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سروے میں ووٹ بینک کو ریجن کے لحاظ سے نقشے کی صورت میں بھی بتایا گیا، جس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو وسطی پنجاب میں 55 فیصد، مغربی پنجاب میں 52 فیصد، جنوبی پنجاب میں 49 فیصد اور شمالی پنجاب میں 42 فیصد ووٹ بینک حاصل ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کو شمالی پنجاب میں 31 فیصد، مغربی پنجاب میں بھی 31 فیصد، وسطی پنجاب میں 30 فیصد اور جنوبی پنجاب میں 29 فیصد ووٹ بینک حاصل ہے۔
جبکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو صرف جنوبی پنجاب میں 8 فیصد ووٹ بینک حاصل ہے۔
ادارتی نوٹ
سروے اور پولز ہمیشہ درست نہیں ہوتے تاہم یہ رجحانات کا اندازہ لگانے میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔ الیکشن کا دن قریب آتے آتے حالات و واقعات کے لحاظ سے سروے اور پولز کے نتائج تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
آئی پی او آر ایک سنڈیکیٹڈ سروے ہے، جس میں سیاسی جماعتوں مثلاً پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر کی جانب سے کمیشننگ شامل ہے، تاہم اسے جنگ، جیو اور دی نیوز کی جانب سے کمیشن نہیں کیا گیا۔