ایک پاکستانی کا دورہ بھارت

کوئی ایسا شخص، جو بھارت کا دورہ کر چکا ہے اور جس کے آدھے سے زیادہ رشتے دار بھی وہاں مقیم ہوں، اُس کا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب روایتی حریفوں کے آپسی تعلقات اور مسائل پر کسی نہ کسی سے بحث نہ ہوتی ہو۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی پر دوستوں میں بحث چھڑ جانا عام سی بات ہے، خصوصاً اگست کا مہینہ ہو تو لامحالہ پاک-بھارت تعلقات پر بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کوئی ایسا شخص، جو بھارت کا دورہ کر چکا ہے اور جس کے آدھے سے زیادہ رشتے دار بھی وہاں مقیم ہوں، اُس کا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب روایتی حریفوں کے آپسی تعلقات اور مسائل پر کسی نہ کسی سے بحث نہ ہوتی ہو۔

ہم نے بچپن سے ہی اپنے والدین سے اُن کے بچپن کے قصے اور بھارتی رشتے داروں کی محبت بھری باتیں سنی ہیں اور لا محالہ یہ محبت ہمارے اندر بھی سرایت کرگئی۔ ہم اکثر دوستوں سے ذکر کرتے ہیں کہ فیس بک پر دوستوں سے زیادہ ہماری بھانجیاں، بھانجے، بھتیجے، ماموں اور خالائیں ایڈ ہیں، جن میں اچھی خاصی تعداد بھارتی رشتے داروں کی ہے۔

انٹرنیٹ کی کرم نوازی کی وجہ سے اب فاصلے، فاصلے نہیں رہے اور اکثر ہی فیس بک اور اسکائپ کے ذریعے ہم جہاں کینیڈا اور امریکا میں بیٹھے ماموں اور کزنز کی خیر خبر لے لیتے ہیں، وہیں بھارت میں مقیم اپنے کزنز سے بھی بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں رواں دواں زندگی—۔فوٹو/راقم الحروف

امی کی طرح ان کے کزنز بھی اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ سب اپنے بچپن کے قصے اور اپنے بڑوں کا ذکر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ سب ہمیں اس لیے بھی پسند ہے کہ ہماری والدہ کے لیے یہ سب کسی 'انرجی ٹونک' سے کم نہیں۔ اپنے بہن بھائیوں سے بات چیت کے بعد وہ ایسی خوش ہوجاتی ہیں کہ کیا بتائیں، حد تو یہ کہ اس خوشی میں ڈانٹنے والی بات پر بھی ہمیں ڈانٹ نہیں پڑتی۔

وہاں سے بھی اکثر سب کے حال احوال بمع تصویروں کے ملتے رہتے ہیں۔ اس گپ شپ کے دوران ہم نہ صرف پاکستانی ڈراموں کی تعریف وصول کرتے ہیں بلکہ ان کے فضول ڈراموں کی برائیاں کرتے بھی نہیں تھکتے۔کزنز میں بھی مذاق چلتا رہتا ہے، ہم اس بات پر مصر ہوتے ہیں کہ ہمارا پاکستان اچھا اور تمھارے ہاں یہ اور وہ ۔۔

اقبال روڈ پر واقع اقبال پارک— فوٹو/ راقم الحروف

خیر مزے کی بات یہ ہے کہ ہم دو دفعہ اپنی آنکھوں سے بھی بھارت کو دیکھ کر آئے ہیں۔ گئے تو دونوں دفعہ آفیشل ٹرپ پر تھے، لیکن سونے پر سہاگا یہ کہ اپنے خاندان والوں سے بھی مل آئے۔ واقعی رشتے داروں سے بذات خود ملنا اور غائبانہ تعارف میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

بھارت میں عام لوگوں سے ملنا، طلبہ و طالبات سے میل ملاقات، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ کا پاکستان سینٹر، اردو ڈیپارٹمنٹ جانا، پھر اپنے ریسرچ ٹاپک کے حوالے سے مختلف اساتذہ اور ان کے ریسرچ پیپرز کے لیے بھی وقت نکالنا بالکل الگ ہی تجربہ تھا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سوں سے اب تک کسی نا کسی سطح پر جڑے ہوئے ہیں اور تحفے تحائف اور پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔

بھوپال میں واقع اردو اکیڈمی—۔فوٹو/راقم الحروف
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی دیوار پر لگا ایک پوسٹر—۔فوٹو/راقم الحروف

ہماری گفتگو میں کبھی تاج محل، کبھی اکبر اور ہمایوں کے مقبروں کی باتیں ہوتی ہیں تو کبھی قطب مینار کے بوسیدہ ہوتے میناروں اور لوٹس ٹیمپل کی جدید عمارت کے قصے۔ یہی نہیں لکشمی نارائن مندر کی سیڑھیاں اور اس میں رکھی بڑی بڑی مورتیاں اور لاجپت نگر اور سروجنی نگر کے بازاروں کے چکر بھی ہمیں نہیں بھولتے۔

بھوپال میں واقع جین مندر—۔فوٹو/راقم الحروف

وہاں بھوپال سے جڑے بھیم باٹیکا کے غار دیکھتے ہوئے ہم نے سوچا تھا کہ ہم واپس پاکستان جاکر ٹیکسلا ضرور جائیں گے کیونکہ بھیم باٹیکا کا سلسلہ ٹیکسلا سے جاملتا ہے۔

بھیم باٹیکا—۔فوٹو/راقم الحروف
بھیم باٹیکا—۔فوٹو/راقم الحروف
بھیم باٹیکا—۔فوٹو/راقم الحروف

سب سے بڑی بات بھوپال کے گراؤنڈ پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا نام دیکھنے کی خوشی تھی اور پھر جامعہ نگر کے روڈ پر خان عبدل غفار خان عرف سرحدی گاندھی کا نام کندہ دیکھنے کا منظر دیار غیر میں اپنے پن کا احساس تھا، جس نے آنکھوں کو ٹھندک بخش دی تھی۔ واقعی اس احساس کالطف صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

بھوپال کا ایک تفریحی پارک—۔فوٹو/ راقم الحروف
بھوپال تالاب—،فوٹو/راقم الحروف

ایسا ممکن ہی نہیں کہ اب تک ہمارے دوست احباب اردو اکیڈمی، ہمدرد دواخانہ، جنگ دہلی کے پرانے دفتر اور حضرت نظام الدین کی خانقاہ کی گلیوں میں گھومنے کے قصوں سے ناواقف رہے ہوں یا ہم نے کوچہ بلی ماراں کی گلیوں اور گلزار و غالب کی باتیں نہ کی ہوں۔

بھوپال میں واقع تاج المسجد—۔فوٹو/راقم الحروف

آپ بھی سنیں: جب ہم سارے دن کے تھکے ماندے، ڈھونڈتے ڈھانڈتے غالب کے مزار تک پہنچے اور وہاں تالا لگا دیکھا۔ ہمارا دل اُن سے ملے بغیر ٹلنے والا نہ تھا، سو وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گئے اور آس پاس کے لوگوں کو گیٹ کیپر کو ڈھونڈنا ہی پڑا۔ غالب کی سیڑھیاں ہوں اور حضرت نظام الدین سے مغرب کی اذان گونجنے لگے، اتنے دن بعد اذان سننے کے ساتھ آس پاس سے دہلی کے پکوانوں کی خوشبو آپ کے خالی پیٹ میں چوہوں کی دوڑیں لگوا دے۔ اُس لمحے ہماری جو کیفیت تھی، وہ الفاظ میں بیان ہونا شاید ممکن ہی نہیں۔

بھیم باٹیکا—۔فوٹو/راقم الحروف

آخر میں جہاں رہی بات پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی، تو دنیائے سیاست میں ہمیشہ سے ہی کچھ لو اور کچھ دو کی پالیساں چلتی ہیں اور یہ ہی اصول پاک-بھارت تعلقات میں بھی چلنا چاہے۔ پاکستان کو بھی اپنے مفادات اور ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات رکھنے چاہئیں۔ چاہے وہ ایران ہو یا بھارت، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صرف چین ہمارا پڑوسی ملک نہیں بلکہ کئی اور ممالک بھی ہیں۔

'بھارت ہمارا کھلا دشمن ہے'، بالکل صیحح ! ورلڈ پولیٹکس میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا اور اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی نا سمجھی ہے۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں، صرف وہی ملک اس بحرِ ظلمات میں بڑی مچھلیوں کا شکار نہیں ہوتا جو خود کو ان سے بچا کر رکھتا ہے۔

راقم الحروف تاج محل کے سامنے —۔

پاکستان کو بھی اپنے مفادات کے لیے کُھل کر بات کرنا چاہیے اور مسائل پر بھرپور آواز بھی اٹھانی چاہیے اور جہاں تک بین الاقوامی تعلقات کی تھیوریز کی بات ہے تو 'نیو' اور 'اولڈ لبرل ازم' کے نظریات ہوں یا ریلزم ،وہ سب کتابی باتیں ہیں، ہمارے خطے میں یہ نطریات ناکام ہو جاتے ہیں۔

آج نومنتخب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑی حوصلہ افزا باتیں کیں اور خوشخبری سنائی کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم عمران خان کو مبارکبادی خط میں مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔

اللہ کرے کہ عمران خان کی قیادت میں نئی حکومت بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کا ذریعہ بنے، ہم پُر امید ہیں اور دعاگو ہیں کہ ہماری یہ آس ٹوٹنے نہ پائے، آمین!