05 ستمبر ، 2018
اسلام آباد: امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان کے دوران امریکا کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان سے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کی۔
وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت دیگر حکام بھی موجود تھے جبکہ امریکی وزیر خارجہ کے ہمراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مشیر زلمے خلیل زاد بھی ملاقات میں موجود تھے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد امریکی سفارت خانے کے لیے روانہ ہوئے جہاں انہوں نے امریکی حکام سے ملاقات کی۔
بعد ازاں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان کا مختصر دورہ مکمل کرکے بھارت روانہ ہوگئے۔
امریکی وزیر خارجہ 17 رکنی وفد کے ہمراہ نور خان ایئر بیس سے نئی دلی روانہ ہوئے۔
پاکستان سے روانگی کے ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ نے ٹوئٹ کیا اور لکھا کہ 'آج ہم نے پاکستان میں وزیراعظم عمران سےملاقات کی، وزیر خارجہ شاہ محمود سے میں نے اور میرے ساتھیوں نے ملاقات کی'۔
مائیک پومپیو نے مزید کہا کہ اسلام آبادمیں امریکی سفارتخانے کی ٹیم سے مل کر خوشی ہوئی، امریکی سفارتخانے میں تعینات میرینز سیکیورٹی گارڈز سے مل کر خوشی ہوئی۔
اپنے بیان میں مائیک پومپیو نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقاتوں میں سفارتی اور ملٹری ٹو ملٹری تعلقات پر بات کی گئی۔
امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا سے پیسوں کی نہیں بلکہ اصولوں کی بات کی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پہلے تاثر دیا جاتا تھا کہ امریکی پہلے وزیر اعظم ہاؤس پھر جی ایچ کیو میں ملاقاتیں کرتے تھے، آج ملاقات میں آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، امریکیوں کو واضح پیغام دیا کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا مفاد سب کو عزیز اور مقدم ہے، امریکا کے ساتھ مذاکرات کا اگلا دور واشنگٹن میں ہوگا، امریکا کو کہا ہے کہ بلیم گیم سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، امریکا سےکئی معاملات پر سوچ مختلف ہوگی مگر بعض مشترکہ مقاصد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کی ملاقات سے دوطرفہ تعلقات میں تعطل ٹوٹ گیا اور یہ اچھی پیش رفت ہے، افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں سیاسی ہے، امریکا سے تعلقات صرف لینے دینے کا نہیں۔
اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور مائیک پومپیو کے درمیان دفتر خارجہ میں وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے، جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
امریکی وفد میں امریکی فوج کے جنرل جوزف ڈنفورڈ اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مشیر زلمے خلیل زاد بھی شریک تھے۔
دفتر خارجہ میں ہونے والے مذاکرات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان اور مائیک پومپیو نے امریکی وفد کی نمائندگی کی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اور امریکا کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات 30 منٹ تک جاری رہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ امریکا کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے جب کہ پاکستان کی جانب سے بھی بھرپور مؤقف اپنایا گیا۔
پاکستان کا کہنا تھا کہ پاک امریکا تعلقات میں باہمی مفادات کو دیکھنا ہو گا، پاکستان صرف امریکی مفادات کے لیے نہیں جھکے گا۔
دفتر خارجہ میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی سربراہی میں امریکی وفد نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جس کا اعلامیہ دفتر خارجہ نے جاری کردیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دفترخارجہ میں وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے جس میں دوطرفہ، علاقائی اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی گئی۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاک افغان محاذ پر تازہ مثبت پیش رفت کو اجاگر کیا، وزیر خارجہ نے پاک افغان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی کو اجاگر کیا۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ کا طیارہ نور خان ایئر بیس پہنچا تو دفتر خارجہ کے حکام نے ان کا استقبال کیا جب کہ امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ الگ طیارے میں اسلام آباد پہنچے۔
پاکستان کے لیے روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ 'افغانستان میں ثالثی کے لیے پاکستان امریکا کی مدد کرے'۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'اگر پاکستان کا تعاون نہ ملا تو جو ہوگا وہ جنرل نکلسن اور جنرل ملر بتاچکے ہیں'۔
امداد میں کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ 'پاکستان کو پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا کہ انہیں رقم نہیں ملےگی اور رقم نہ دینے کی وجہ بھی بتادی گئی تھی'۔
امریکی وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ 'وجہ واضح ہے کہ ہم نے وہ پیشرفت نہیں دیکھی جو پاکستان سے دیکھنا چاہتے تھے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم وسائل اُس وقت فراہم کر رہے تھے، جب اس کی منطق تھی'۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'وہی صورتحال پھر آئی تو پُر اعتماد ہوں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جواز فراہم کردیں گے'۔
پاک-امریکا تعلقات میں تناؤ
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اُس وقت سے تناؤ کا شکار ہیں جب رواں برس یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران پاکستان کو 33 ملین ڈالر امداد دے کر حماقت کی جبکہ بدلے میں پاکستان نے ہمیں دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا۔
بعدازاں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی پاکستان کی سیکیورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کردیا جبکہ پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ سنگین خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں بھی شامل کردیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی تک معاونت معطل رہے گی۔
دوسری جانب پاکستان نے امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، لیکن امریکا اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔
رواں ماہ 2 ستمبر کو بھی امریکا نے پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے 30 کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس حوالے سے ترجمان پینٹاگون کا کہنا تھا کہ پاکستان سے سیکیورٹی تعاون کی معطلی کا اعلان جنوری 2018 میں کیا گیا تھا اور اس میں کولیشن سپورٹ فنڈ بھی شامل ہے۔