06 ستمبر ، 2018
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں سابق نثار نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے لیے 10 دن میں اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بنچ سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طلبی سے متعلق سماعت کر رہا ہے۔
اس موقع پر سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ، ڈی جی نیب اور دیگر متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص لندن کی گلیوں میں گھوم رہا ہے اور وطن واپس آنے کے کیے تیار نہیں، عدالت بلائے تو کہتا ہے میرے 'مسل پل' ہوگئے ہیں، سابق وزیر خزانہ عدالتی احکامات کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے اگر ان کا پاسپورٹ منسوخ کریں تو کیا نتائج برآمد ہوں گے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پاسپورٹ منسوخی کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پناہ لے کر ہی وہاں رہ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہے تو لے لیں پناہ اور وہاں بتائیں کہ پاکستانی عدالتیں زیادتی کر رہی ہیں اور تو کوئی جواز نہیں ان کے پاس۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈار صاحب کو ایسی چک پڑی ہے کہ یہاں تو سارا معاملہ ہی چکا گیا، عدالت سب سے زیادہ پریشان ان کی عدم حاضری پر ہے جو بلانے کے باوجود پیش نہیں ہو رہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ موجودہ حکومت نے اس معاملے میں اب تک کیا کیا ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نیب نے انہیں اشتہاری قرار دیا ہوا ہے اور انٹرپول کو بھی معاملہ ریفر کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سے پوچھ کر بتائیں اسحاق ڈار کو کب تک واپس لائیں گے، ان کی وطن واپسی کے لیے 10 دن میں اقدامات کیے جائیں۔
اس موقع پر نیب حکام نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے، ہم نے اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے ریڈوارنٹ کے لیے وزارت داخلہ کو لکھا ہے۔
عدالت نے اسحاق ڈار کی واپسی سے متعلق تمام اداروں کو مشاورت کی ہدایت کرتے ہوئے منگل کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کے پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے 831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جن میں مختصر مدت کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا۔
مسلسل غیر حاضری پر احتساب عدالت نے 11 دسمبر 2017 کو اسحاق ڈار کو اشتہاری ملزم قرار دے دیا جب کہ وہ لندن میں قیام پذیر ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ وہ علاج کی غرض سے لندن میں موجود ہیں۔