پاکستان
Time 24 ستمبر ، 2018

جعلی اکاؤنٹس کیس: 33 مشکوک اکاؤنٹس کا سراغ لگالیا، پیشرفت رپورٹ عدالت میں جمع



اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے پہلی پیشرفت رپورٹ سیل شدہ لفافے میں سپریم کورٹ میں جمع کرادی جب کہ اعلیٰ عدالت نے تمام ماتحت عدالتوں کو اومنی گروپ کے منجمد اکاؤنٹس سے متعلق کسی قسم کا فیصلہ کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔ 

سماعت شروع ہوئی تو جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے پہلی پیشرفت رپورٹ جمع کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وقت کی کمی کے باعث مشکلات کا سامنا رہا اور اب تک کی ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیا۔ 

احسان صادق نے بتایا کہ مزید 33 مشکوک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے جن کی اسکروٹنی کی جارہی ہے اور اب تک کی تحقیقات میں 334 ملوث افراد سامنے آئے ہیں اور تمام افراد اکاؤنٹس میں ٹرانزیکشنر کرتے رہے۔

جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ 210 کمپنیوں کے روابط رہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا ابھی لانچز کا معلوم نہیں ہوا، ذرا لانچ کے ذریعے رقم منتقلی کا بھی پتہ کریں'، احسان صادق نے کہا کہ ابھی لانچ تک نہیں پہنچے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بڑے اعتماد کے ساتھ جے آئی ٹی کو ذمہ داری دی ہے، اکاؤنٹس کا مقصد یہی ہے چوری اور حرام کے پیسے کو جائز بنایا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا 'ایک اہم کردار عارف خان بھی ہے' جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ وہ بیرون ملک ہے، کس ملک میں ہے ابھی ظاہر نہیں کر سکتا۔

احسان صادق نے کہا کہ جو ملزمان باہر ہیں انہیں واپس لانے کے اقدامات کر رہے ہیں جس کے لیے ملزمان کے ریڈ وارنٹ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں جب کہ تحقیقات کے لیے نیب ، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک سے ریکارڈ لے رہے ہیں۔

جعلی اکاؤنٹس سے متعلق کمپینوں میں 47 کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے، سربراہ جے آئی ٹی

سربراہ جے آئی ٹی نے مزید بتایا کہ جعلی اکاونٹس میں کنٹریکٹرز نے رقم جمع کرائی ہے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا 'کیا رقم کراس چیک کے ذریعے اکاونٹس میں جمع ہوئی؟' احسان صادق نے بتایا کہ جعلی اکاؤنٹس کے معاملے کا جائزہ لینا پڑے گا، کمپینوں میں 47 کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اومنی گروپ کی کتنی شوگر ملز ہیں، سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا 16 شوگر ملز ہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کیا اومنی گروپ کسی کا بے نامی دار تو نہیں جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس میں رقم جمع کروانے والے ٹھیکیدار بھی تھے، سرکاری ٹھیکیداروں کے نام بھی رپورٹ کا حصہ بنا دیے تاہم تمام ٹرانزیکشنز کا جائزہ لینا مشکل کام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا جے آئی ٹی کا خرچہ اومنی گروپ پر ڈالیں گے، پیسہ کوئی کھائے اور خرچہ سرکار کیوں کرے۔

اس موقع پر  اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید و عبدالغنی مجید کے وکیل نے جے آئی تی اخراجات دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے تمام اکاؤنٹس منجمد ہیں، ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسہ نہیں۔

چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کوئی گھر بیچ کر اخراجات کیلیے جے آئی ٹی کو پیسے دیں جس پر وکیل نے کہا اثاثے اور بینک اکاؤنٹس منجمند ہیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ ٹرائل کورٹ اومنی گروپ کے اکاؤنٹس کھولنے کی درخواست پر فیصلہ نہ دے، آرٹیکل 184 کے تحت اسپیشل کورٹ کو حکم جاری کرنے سے روکتے ہیں اور خصوصی عدالت جعلی بینک اکاونٹس سے متعلق سپریم کورٹ کو آگاہ کئے بغیر کوئی حکم جاری نہ کرے۔

عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت 10 روز کے لیے ملتوی کردی۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر

ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔

مزید خبریں :