دنیا
Time 06 اکتوبر ، 2018

'ماضی کو پیچھے چھوڑیں، آگے بڑھیں': باہمی تعلقات کیلئے امریکا کا پاکستان کو پیغام

امریکا کے حالیہ دورے کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن سے بھی ملاقات کی تھی—۔ فائل فوٹو

واشنگٹن: امریکا کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات پروان چڑھانے کے حوالے سے پیغام دیا ہے کہ امید ہے نئی پاکستانی حکومت کے ساتھ ہم ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ سکیں گے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جان بولٹن نے حال ہی میں امریکا کا دورہ کرنے والے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے حوالے سے بتایا۔

واضح رہے کہ حال ہی میں شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا کا 14 روزہ دورہ کیا ہے، اس دوران انہوں نے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو اور امریکی مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن سمیت دیگر امریکی حکام اور عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔

شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے حوالے سے جان بولٹن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ تعمیری بات چیت ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ گفتگو کے دوران پاکستان کی امداد کے معاملے پر بھی بات ہوئی جبکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا کردار بھی زیرِ غور آیا۔

امریکی مشیر قومی سلامتی نے اس امید کا اظہار کیا کہ کوشش کی جائے گی کہ 'ماضی کو چھوڑ کر ہم آگے بڑھ سکیں'۔

جان بولٹن کا مزید کہنا تھا کہ ملاقات میں پاکستانی قید میں موجود ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکا کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر مبینہ طور پر ایک جعلی ویکسی نیشن مہم کے ذریعے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں امریکا کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

بعدازاں 2012 میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیکل ایجنٹ کی جانب سے کالعدم تنظمیوں سے رابطوں اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 33 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جس کے بعد ان کو سینٹرل جیل پشاور منتقل کردیا گیا تھا اور رواں برس اپریل میں انہیں سیکیورٹی خدشات کے باعث نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

امریکا میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان میں مناسب ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا اور انہیں قبائلی نظام کے تحت 'غیر قانونی طور پر قید' کیا گیا۔

کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شکیل آفریدی کی رہائی سے پاکستان اور امریکا کے درمیان کشیدہ تعلقات پر 'ڈرامائی اثر' پڑے گا۔

پاک-امریکا تعلقات میں تناؤ

واضح رہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات رواں برس جنوری سے تناؤ کا شکار ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ 'امریکا نے گزشتہ 15 برس میں احمقوں کی طرح پاکستان کو 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیئے اور انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا'۔

گذشتہ برس دسمبر میں افغانستان کے دورے کے موقع پر امریکا کے نائب صدر مائیک پینس کا کہنا تھا کہ 'دہشت گردوں کو پناہ دینےکے دن ختم ہوگئے، پاکستان کو امریکا کی شراکت داری سے بہت کچھ حاصل ہوگا، لیکن دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے سے بہت کچھ کھونا پڑے گا'۔

اُسی ماہ نئی نیشنل سیکیورٹی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف پاکستان سے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف 'فیصلہ کن' کارروائی کا مطالبہ کیا، بلکہ مالی امداد کا طعنہ بھی دے دیا۔

اس سے قبل گذشتہ برس اگست میں بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا عندیہ دیا تھا اور اسلام آباد پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام دہراتے ہوئے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید خبریں :