پاکستان
Time 15 اکتوبر ، 2018

سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کا بیان کمیشن کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا حکم


اسلام آباد: سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم کا بیان کمیشن کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس یاور علی کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعت کی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس نذر اکبر شامل ہیں۔

گزشتہ سماعت پر عدالت نے ملزم کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے پر وکیل سے جواب طلب کیا تھا آج فریقین وکلا نے اس پر دلائل دیے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد حکم فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کا بیان کمیشن کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے گا اور کمیشن خصوصی عدالت مقرر کرے گی۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی، یاد رہے کہ کیس کی سماعت کے لیے ایک جج کوئٹہ، ایک کراچی اور ایک لاہور سے اسلام آباد آتے ہیں اور سابق صدر کو خصوصی عدالت کی جانب سے کئی بار طلب کیا جاچکا ہے۔

فریقین وکلا کے دلائل

آج سماعت کے آغاز پر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ نہیں کرانا چاہتے بلکہ خود پیش ہو کر اپنا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔

استغاثہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا پرویز مشرف نے عدالت کا 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کردیا ہے۔

جسٹس یاور علی استفسار کیا پرویز مشرف نے دبئی کے امریکن اسپتال کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کیا جس پر اگست کی تاریخ درج ہے اور یہ رپورٹ پرانی ہے۔

جسٹس یاور نے کہا ڈاکٹرز کو پرویز مشرف کی صحت کا دوبارہ جائزہ لینا تھا جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا ابھی بھی میرے موکل کی صحت ویسی ہی ہے اور دل کے عارضہ کے ٹیسٹ تاحال کیے جا رہے ہیں، عدالت وقت دے تو مزید ہدایات لے سکتا ہوں۔

وکیل سلمان صفدر نے اصرار کیا کہ پرویز مشرف علیل ہیں جس پر جسٹس یاور علی نے استفسار کیا 'کیا انہیں کینسر کا عارضہ لاحق ہے، وکیل نے جواب دیا 'میرے موکل کو دل کا عارضہ ہے، پرویز مشرف کہتے ہیں وہ بزدل نہیں اور انہیں کسی کا خوف نہیں ہے۔

سنگین غداری کیس کا پس منظر

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی فوجی آمر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے، تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔

بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

رواں سال 8 مارچ سے خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کیں، تاہم 29 مارچ کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔

عدالتی حکم نامے میں بتایا گیا تھا کہ پرویز مشرف کی جانب سے جسٹس یحیٰ آفریدی پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ جسٹس یحیٰ آفریدی سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کے وکیل رہ چکے ہیں۔

مزید خبریں :