لاہور قلندرز کا نیا کپتان کون ہوگا؟

کچھ لوگ ٹیم کی قیادت کو اس فرنچائز کے آگے نہ بڑھنے کی وجہ قرار دیتے ہیں— فوٹو: فائل

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی سب سے زیادہ متحرک فرنچائز لاہور قلندر مقبولیت اور کام کے اعتبار سے اگر یہ کہا جائے کہ منفرد اور الگ پہچان بنا چکی ہے تو غلط نہ ہوگا البتہ پی ایس ایل کے مقابلوں میں رانا فواد کی اس ٹیم کو نتائج کے اعتبار سے بد قسمت کہا جا سکتا جس کا ثبوت تینوں سیزن میں اس ٹیم کا آخری نمبر کی ٹیم بننا ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ لاہور قلندرز ٹورنامنٹ سے پہلے پلئیرز ڈیویلپمنٹ پروگرام میں ساری توانائی لگا کر ٹورنامنٹ کے وقت تھک جاتے ہیں، تاہم اس فرنچائز کے مالکان اس سوچ کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا سوچنے والے پلئیر ڈیویلپمنٹ پروگرام اور ٹیم کی کارکردگی کا موازنہ کر رہے ہیں جو سراسر غلط فہمی ہے۔

کچھ لوگ ٹیم کی قیادت کو اس فرنچائز کے آگے نہ بڑھنے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے ، 2016ء کے پہلے سیزن میں اس ٹیم کے کپتان اظہر علی تھے، البتہ اگلے دو سیزن میں نیوزی لینڈ کے برینڈن میک کولم اس ٹیم کے قائد رہے،جن کی قیادت میں لاہور قلندرز خاطر خواہ کارکردگی نہ پیش کر سکی۔

ٹی 20 فارمیٹ میں میک کولم ایک بڑا نام ہے، 2015ء میں نیوزی لینڈ ٹیم میلبورن میں آئی سی سی ورلڈ کپ کا فائنل میک کولم کی قیادت میں کھیلی، البتہ اب کی بار یہ طے پاچکا ہے کہ قلندرز کے کپتان کم ازکم میک کولم نہیں ہوں گے۔

پاکستان سوپر لیگ کے پہلے دو سیزن میں دو دو اور اس سال تین میچ جیتنے والی ٹیم نے اس سال ابوظہبی میں نئے اور بلکل نئے کھلاڑیوں کے ساتھ ٹورنامنٹ جیتا تو قیادت سہیل اختر کر رہے تھے، البتہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے 32 سال کے اس کھلاڑی کو اتنے بڑے ایونٹ میں قلندرز بطور کپتان میدان میں اتاریں،ممکن دکھائی نہیں دیتا، تو پھر کون ہوگا سیزن فور2019ء میں لاہور قلندرز کا نیا کپتان؟ کوئی پاکستانی یا پھر غیر ملکی؟

اس بارے میں جب لاہور قلندرز کے مینجر اور چیف آپریٹنگ آفیسر ثمین رانا سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم سوال ہے، دراصل نئے کپتان کیلئے ہمارا ووٹ بھی پاکستانی کھلاڑی کیلئے ہی ہے، اس بارے میں ہم نے سنجیدہ نوعیت کی ایک بیٹھک بھی کی، لیکن کھلاڑیوں کے ڈرافٹ میں ہمارے منتخب اسکواڈ کے بعد ہی یہ طے ہو سکے گا کہ ہمیں کرنا کیا ہے؟ ہم منصوبہ بندی تو کر سکتے ہیں البتہ سب باتوں کا انحصار ہمارے مطلوبہ کھلاڑیوں کی سلیکشن پر ہے۔

ٹیم کے کوچ عاقب جاوید کہتے ہیں کہ وہ چند باتوں میں بہت سیدھا سوچتے ہیں، خاص طور پرکپتان کی سوچ اور حکمت عملی گراؤنڈ میں اہم فیصلوں کی وجہ بنتی ہے، جس کا ہر لحاظ سے آپ کی ٹیم کی جیت اور ہار سے گہرا تعلق ہوتا ہے،ہم نے پہلے سیزن میں اظہر علی کو کپتان اس لیے بنایا کہ وہ پاکستان ون ڈے ٹیم کا کپتان تھا،اسے کپتانی کے بارے میں علم تھا، وہ الگ بات ہے کہ اسے کامیابی نہیں مل سکی، اسی طرح برینڈن میک کولم کسی اور ٹیم میں بھی ہوتا تو آپ کے خیال میں اسے کپتان نا بنایا جاتا؟ بلکل دوسری ٹیم بھی وہی کرتے جو ہم نے کیا۔ اب آجاتے ہیں سیزن فور میں ہمارا کپتان پاکستانی ہوگا یا غیر ملکی؟ ابھی اس بارے میں ہم نے بات تو کی ہے،البتہ ہماری سوچ پر عمل ڈرافٹ مکمل ہونے پر ہی واضح ہوگا کہ جن کھلاڑیوں کے بارے میں ہم نے اس معاملے میں سوچا وہ ہمارے اسکواڈ میں شامل ہوتے بھی ہیں یا نہیں ؟

لاہور قلندرز کے چیف ایگزیکٹو عاطف رانا کہتے ہیں کہ کرکٹ کے معاملات ثمین اور عاقب دیکھتے ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ کپتان منتخب کرنے میں میرا بھی اہم کردار ہے، فرنچائز کے روح رواں ضرور رانا فواد ہیں لیکن اچھی بات ہے کہ وہ سب کے فیصلوں پر مکمل طور پر ہمیں آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رہی بات کپتان کی تو سچ پوچھیں تو پاکستانی کپتان ہی بہتر انتخاب ہوگا لیکن سب چیزیں ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتیں، ہم سوچ سکتے ہیں لیکن قسمت کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے اس طرح کے معاملات میں۔ ہوتا یہ ہے جب آپ اسکواڈ بناتے ہیں تو صرف کپتان کو مد نظر نہیں رکھ سکتے،ٹیم کے توازن کا فارمولہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، بحر حال اس بار امید ہے کہ ہم کپتان کے معاملے میں مطلوبہ نتائج حاصل کر لیں گے۔

مزید خبریں :