کھیل

پی سی بی نے مسلسل تنقید کے بعد جسٹس قیوم رپورٹ پر یوٹرن لے لیا

جسٹس قیوم کمشین کے بارے میں دیئے گئے تاثر کو رد کیا جاتا ہے، رپورٹ مسترد کرنے یا کلین چٹ دینے کا تاثر درست نہیں ہے، پی سی بی کا وضاحتی بیان— فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی کرکٹ کمیٹی کے ارکان کا تقرر کرتے ہوئے چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے میچ فکسنگ کے حوالے سے جسٹس (ر) قیوم کی رپورٹ کو نامکمل قرار دیا تھا اور میچ فکسنگ کی تحقیقات کرنے والے قیوم کمیشن میں سزا یافتہ کھلاڑیوں کو کلین چٹ دی دے تھی تاہم اب بورڈ نے مسلسل ہونے والی تنقید کے بعد وضاحتی بیان میں یوٹرن لے لیا ہے۔

پی سی بی نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ جسٹس قیوم کمشین کے بارے میں دیئے گئے تاثر کو رد کیا جاتا ہے، رپورٹ مسترد کرنے یا کلین چٹ دینے کا تاثر درست نہیں ہے، پی سی بی نے جسٹس قیم رپورٹ کو تسلیم کیا تھا اور رپورٹ کی تعریف بھی کی تھی۔

پی سی بی کے مطابق رپورٹ میں جسٹس قیوم نے سابق قومی کپتان وسیم اکرم کو کرکٹ کی بہتری میں کردار ادا کرنے سے نہیں روکا تھا۔

احسان مانی سے جب پی سی بی کی کرکٹ کمیٹی میں سابق آل راؤنڈر و کپتان وسیم اکرم کی شمولیت کے بارے صحافیوں نے سوال کیا تھا کہ ان کا نام تو جسٹس قیوم کی میچ فکسنگ سے متعلق رپورٹ میں موجود ہے تو احسان مانی نے الٹا صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ میں سے کتنے لوگوں نے وہ رپورٹ پڑھی ہے؟

احسان مانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ قیوم صاحب نے کچھ الزامات لگائے تھے اور کہا تھا کہ وہ بعد میں اس کی تفصیلات دیں گے جو آج تک کسی نے نہیں دیکھی ہیں۔

اب پی سی بی کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وسیم اکرم نے کرکٹ کمنٹری میں بھی شہرت حاصل کی، وسیم اکرم نے کوچ اور مینٹور کی حیثت سے دنیا بھر میں کام کیا، فاسٹ بولنگ کیمپ اور دیگر معاملات میں وسیم اکرم کئی بار پی سی بی کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

پی سی بی کے مطابق کرکٹ کمیٹی سفارشات اور تجاویز دینے والی باڈی ہے، بورڈ کا مقصد سابق کھلاڑیوں کے تجربے سے استفادہ کرنا ہے، آئی سی سی نے بھی وسیم اکرم کا نام ہال آف فیم میں شامل کیا تھا، کرکٹ کرپشن کے حوالے سے پی سی بی کی عدم برداشت کی پالیسی ہے۔

احسان مانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں جن کرکٹرز کا ذکر ہوا تھا ان میں سے دو نے کم از کم انگلینڈ کے لیے بھی کوچنگ کی ہے جبکہ بقیہ بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں شامل رہے ہیں اور ان ملکوں نے ان کرکٹرز کے بارے میں تمام تر تحقیقات کرکے ہی انہیں یہ ذمہ داری سونپی تھی۔

اس حوالے سے سابق کپتان وسیم اکرم نے جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا اس لیے وہ ہمیشہ سے پُرسکون تھے، اب اتنے برسوں کے بعد نام کلئیر ہوا ہے تو مزید پُرسکون ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے پتا ہے لوگ تنقید کرتے رہے ہیں اب بھی کریں گے، 12   برسوں سے لوگ ان کی خدمات لے رہے ہیں کوئی کوالٹی ہے تو لے رہے ہیں۔

پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے رکن وسیم اکرم کے بارے میں اپنی رپورٹ میں جسٹس قیوم نے فیصلہ دیا تھا کہ وسیم اکرم کو شک کا فائدہ دیا جاتا ہے لیکن کچھ شواہد ایسے ضرور ہیں جو ان کی ساکھ کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں لہٰذا انہیں کپتانی سے ہٹایا جائے، ان پر کڑی نظر رکھی جائے اور ان کے اثاثوں کی تحقیقات کی جائے۔

دوسری جانب 90 کی دہائی میں پاکستانی کرکٹ میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کرنے والے جسٹس ملک محمد قیوم کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیقاتی رپورٹ مکمل تھی اسی لیے میچ فکسنگ میں ملوث کرکٹرز پر جرمانوں اور پابندیوں کی سفارش کی گئی، فیصلے پر عملدرآمد ہوا۔

خیال رہے کہ جسٹس ملک محمد قیوم نے پاکستانی کرکٹ میں میچ فکسنگ کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ سلیم ملک میچ فکسنگ میں ملوث ہیں لہٰذا ان پر تاحیات پابندی عائد کی جائے۔ عطا الرحمٰن پر تاحیات پابندی عائد کی جائے، مشتاق احمد کو کوئی ذمہ داری (کپتانی ، سلیکشن) بورڈ اور ٹیم میں نہ سونپی جائے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔

جسٹس قیوم کمیشن نے سلیم ملک پر دس لاکھ روپے، مشتاق احمد اور وسیم اکرم پر تین تین لاکھ روپے جبکہ وقاریونس، عطا الرحمٰن، انضمام الحق، سعید انور اور اکرم رضا پر ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔

مزید خبریں :