دنیا
Time 17 نومبر ، 2018

سی آئی اے تحقیقات: 'سعودی ولی عہد نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا'

 سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

واشنگٹن: امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اپنی تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ترکی میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

ترک پولیس کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ جمال خاشقجی کو سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا، تاہم سعودی حکام کی جانب سے پہلے تو اس الزام کی سختی سے تردید کی گئی، لیکن بعد ازاں سعودی حکام نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ صحافی جمال خاشقجی استنبول میں واقع قونصل خانے میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے، تاہم ان کی لاش اب تک برآمد نہیں کی جاسکی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی حکام نے سی آئی اے کی تحقیقات پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، جس کے مطابق 15 سعودی ایجنٹس پر مشتمل ایک ٹیم اکتوبر میں حکومتی طیارے میں ترکی کے شہر استنبول آئی اور سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کو قتل کیا، جو وہاں اپنی ترک منگیتر سے شادی کے لیے درکار ضروری کاغذات وصول کرنے کے لیے آئے تھے۔

اپنی تحقیقات میں سی آئی اے نے بہت سے انٹیلی جنس ذرائع کا جائزہ لیا، جن میں وہ فون کال بھی شامل ہے، جس میں امریکا میں تعینات سعودی سفیر اور ولی عہد محمد بن سلمان کے بھائی خالد بن سلمان کی مقتول صحافی جمال خاشقجی سے گفتگو ہوئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق اس معاملے سے آگاہ افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا  کہ خالد بن سلمان نے جمال خاشقجی سے کہا کہ وہ سعودی قونصل خانے جاکر مطلوبہ دستاویزات حاصل کرلیں اور ساتھ ہی انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ یہ کام بالکل محفوظ ہوگا۔

رپورٹ میں فون کال سے آگاہ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ سعودی ولی عہد کے سیکیورٹی افسر مہر مرتب نے محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی سعود القہتانی کو فون کال کرکے آپریشن مکمل ہونے کی خبر دی۔

سی آئی اے کی ان تحقیقات کے نتائج سعودی حکومت کے اُن بیانات کے بالکل برعکس ہیں، جن میں وہ اس قتل میں ملوث ہونے سے انکار کرچکی ہے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انٹیلی جنس معاملہ ہے۔ علاوہ ازیں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا خالد بن سلمان یہ بات جانتے تھے کہ جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا جائے گا، لیکن انہوں نے اپنے بھائی کے کہنے پر یہ فون کال کی۔

تاہم خالد بن سلمان نے واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے جانے کی تجویز دینے کی تردید کردی۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے بتایا کہ ان کی سعودی صحافی سے آخری مرتبہ بات ان کے قتل سے ایک سال قبل 26 اکتوبر 2017 کو ایک ٹیسکٹ میسج کے ذریعے ہوئی تھی۔

خالد بن سلمان نے لکھا،  'میں نے ان سے کبھی فون پر بات نہیں کی اور نہ ہی انہیں ترکی جانے کی تجویز دی، میرا مطالبہ ہے کہ امریکی حکومت اس دعوے سے متعلق معلومات جاری کرے۔'


اپنی دوسری ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا کہ بدقسمتی سے واشنگٹن پوسٹ نے اس معاملے پر ان کا مکمل جواب شائع نہیں کیا۔


واضح رہے کہ دو روز قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ منظور نہیں ہے۔

ریاض میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کا قتل انتہائی بھیانک جرم ہے جس کی ہر سطح پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں شفاف اور آزادانہ عدالتی نظام موجود ہے اس لیے خاشقجی قتل کیس کی عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ منظور نہیں ہے۔

عادل الجبیر نے مزید کہا کہ خاشقجی کے قتل کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال اور سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ہوگی۔

مزید خبریں :