پاکستان
Time 28 نومبر ، 2018

وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا

نارووال: وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔

تحصیل شکر گڑھ میں واقع گوردوارہ صاحب کے قریب کرتارپور کوریڈور کے سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیر خارجہ  شاہ محمود قریشی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، بھارتی وزیروں پر مشتمل وفد، مختلف ممالک کے سفارتکاروں، عالمی مبصرین اور سکھ برادری کے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

کرتارپور راہداری کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور دیگر شخصیات کو بریفنگ دی جارہی ہے — فوٹو: پی آئی ڈی

بھارت کی نمائندگی وزیر خوراک ہرسمرت کور اور وزیر تعمیرات ہردیپ سنگھ نے کی جب کہ سابق بھارتی کرکٹر و سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔

گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سمیت دیگر حکومتی شخصیات نے بھی تقریب میں شرکت تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی صرف سیکھنے کے لیے ہوتا ہے، رہنے کے لیے نہیں، پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا یہ حال ہے کہ ہم ایک قدم آگے بڑھ کر دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں، جب تک ہم ماضی کی زنجیریں نہیں توڑیں گے، آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

وزیراعظم نے فرانس اور جرمنی کے ماضی کے تعلقات اور جنگوں کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کو مشورہ دیا کہ 'اگر فرانس اور جرمنی ایک یونین بنا کر آگے بڑھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں، اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں، ہماری جماعت، ہماری فوج، تمام سیاسی جماعتیں اور سارے ادارے ایک پیج پر کھڑے ہیں، ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور بھارت کے ساتھ ایک مہذب تعلق چاہتے ہیں۔

تقریب سے خطاب کے دوران نوجوت سنگھ سدھو نے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کرتارپور راہداری کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس کے ساتھ عمران خان کا نام ضرور لکھا جائے گا۔

نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ پاکستان نے سرحد کھول کر پوری کائنات ہماری جھولی میں ڈال دی ہے، بابا نانک کا فلسفہ جوڑنے کا ہے توڑنے کا نہیں، خون خرابہ بند ہونا چاہیے، امن آنا چاہیے، بہت خون خرابہ ہوگیا اور بہت نقصان ہوگیا۔


بھارتی وزیر ہرسمرت کور نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 70 سال میں ہم کتنا نزدیک ہو کر بھی کتنے دور تھے، آج دوریاں ختم ہو رہی ہیں، میرے گرونانک کا بلاوا آیا تو آج آپ کی دھرتی پر آئی ہوں۔

بھارتی وزیر نے کہا کہ جس دن بھارتی کابینہ نے راہداری کی منظوری دی اس دن میری دنیا ہی بدل گئی، عمران خان جب کرکٹ کھیلتے تھے تو انہیں نہیں پتا تھا کہ وہ اس عہدے پر پہنچیں گے اور نریندری مودی جب چائے بیچتے تھے انہیں نہیں پتا تھا کہ وہ اس عہدے پر پہنچیں گے۔

ہرسمرت کور کا کہنا تھا کہ جیسے بابا گرونانک نے سب کو جوڑا ویسے کرتار پور راہداری بھی سب کو جوڑے گی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کرتارپور راہداری کی تقریب میں شرکت پر خوشی ہوئی، بابا گرونانک نے امن اور محبت کا پیغام دیا، ان  کا سحر انگیز کلام ہمارا باہمی سرمایہ ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اسلام مذہبی رواداری کا درس دیتا ہے، کرتارپور راہداری کھولنے کا پوری دنیا نےخیر مقدم کیا، راہداری کھلنے سے بھارتی سکھ زائرین کو گوردوارہ صاحب تک پہنچنے میں آسانی ہو گی۔

کرتار پور کہاں واقع ہے؟

کرتارپور گوردوارہ ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے جو بھارتی سرحد سے کچھ دوری پر ہے، گوردوارہ دربار صاحب 1539 میں قائم کیا گیا۔

بابا گرونانک نے وفات سے قبل 18 برس اس جگہ قیام کیا اور گرونانک کا انتقال بھی کرتارپور میں اسی جگہ پر ہوا۔

کرتارپور راہداری منصوبہ

پاکستان گوردوارہ صاحب سے سرحد تک اپنی حدود میں کرتارپور کوریڈور فیز ون میں ساڑھے 4 کلو میٹر سڑک تعمیر کرے گا، اسی طرح بھارت بھی اپنی حدود میں سرحد تک راہداری بنائے گا۔

منصوبہ مکمل ہونے پر یاتریوں کو کرتارپور کے  لیے ویزے کی ضرورت نہیں پڑے گی تاہم اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان حتمی بات چیت ہونا باقی ہے۔

پاکستان گردوارہ صاحب سے سرحد تک اپنی حدود میں کرتارپور کوریڈور فیز ون میں ساڑھے 4 کلو میٹر سڑک تعمیر کرے گا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پہلے مرحلے میں دریائے راوی پر 800 میٹر پل، پارکنگ ایریا، سیلاب سے بچاؤ کے لیے فلڈ پروٹیکشن بند اور گوردوارہ کمپلیکس کی تعمیرنو کی جائے گی جب کہ گوردوارہ دربار صاحب میں بارڈر ٹرمینل کی تعمیر منصوبے کا حصہ ہے، دریائے راوی پر پُل کی تعمیر اور سڑک کے ذریعے محفوظ رسائی بھی منصوبے کا حصہ ہے۔

دوسرے مرحلے میں گوردوارہ دربار صاحب میں اضافی رہائش کی تعمیر ہوگی، یاتریوں کو ویزہ فری انٹری، بس سروس، میڈیکل کی سہولت، ٹک شاپ، فلاور شاپ، کیفے ٹیریا اور لائبریری کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

آج واہگہ بارڈر کے ذریعے پہنچے والے وفد میں شامل بھارتی وزیر ہرسمرت کور بادل کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج وہاں جارہی ہوں جہاں بابا گرونانک نے 18 برس گزارے، آج بہت جذباتی ہوں، خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کرتار پور جاسکوں گی، میرے جیسے لاکھوں لوگوں کی دعائیں رنگ لا رہی ہیں۔

خیال رہے کہ رواں ماہ 22 نومبر کو بھارت کی وفاقی کابینہ نے پاکستان کی تجویز مانتے ہوئے کرتارپور سرحد کھولنے کی منظوری دی تھی، اس منصوبے کے تحت بھارت پاکستان کی سرحد تک اپنی حدود میں سکھ یاتریوں کیلئے سڑک تعمیر کرے گا۔

اس حوالے سے بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت بھارتی پنجاب کے ضلع گرداسپور میں ڈیرہ بابا نانک سے پاکستان کی سرحد تک راہداری تعمیر کرے گی۔ بھارتی ریلوے اس سلسلے میں ایک ٹرین چلائے گی جو گرونانک سے وابستہ مقدس مقامات سے گزرے گی اور اس فیصلے کا مقصد پاکستان جانے والے سکھ یاتریوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔

کرتار پور کی تاریخی اہمیت

لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے کرتارپور کہا جاتا ہے، یہ وہ بستی ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ء میں بسایا اور یہ گاؤں پاک بھارت سرحد سے صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

نارووال شکر گڑھ روڈ سے کچے راستے پر اتریں تو گوردوارہ کرتار پور کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے، یہ گوردوارہ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 سے 1929 کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ 

گرو نانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں بسر کیے اور اُن کی سمادھی اور قبر بھی یہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کرتارپور سکھوں کے لیے مقدس مقام ہے۔

بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔

ہندوستان کی تقسیم کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گوردوارہ بند رہا۔

نوجوت سنگھ سدھو بھارت میں قائم درشن استھل سے گوردوارے کو دیکھ رہے ہیں — فوٹو: فائل

بھارتی سیکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک 'درشن استھل' قائم کر رکھا ہے جہاں سے سکھ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے، تاہم پہلی بار 1998 میں دونوں حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ہر سال سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ ملنا شروع ہوا۔

گوردوارے کے انچارج سردار گوبند سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پہلے جنگل تھا، 2000ء میں اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کی گئی تو سکھ یاتریوں کی آمد شروع ہوگئی، گوردوارے کے باغیچے میں واقع کنویں کو 'سری کھوہ صاحب' کہا جاتا ہے۔

گورداورے میں ایک لنگر خانہ بھی ہے جہاں یاتریوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔

مزید خبریں :