12 دسمبر ، 2018
واشنگٹن: امریکا نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی سے متعلق خصوصی تشویش والی فہرست میں شمولیت کے باجود پاکستان کو ممکنہ معاشی پابندیوں سے استثنی دے دیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں اعلان کیا گیا تھا کہ بین الاقوامی ایکٹ برائے مذہبی آزادی 1998 کے تحت پاکستان سمیت ایران، سعودی عرب، چین، تاجکستان، ترکمانستان، سوڈان، برما، اریٹریا اور شمالی کوریا کے نام مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر خصوصی تشویش والی فہرست میں شامل کیے جارہے ہیں، جس کا مقصد اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک پر دباؤ بڑھانا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کی اس فہرست کے تحت پاکستان پر معاشی پابندیاں لگ سکتی تھیں، تاہم عالمی مذہبی آزادی کے حوالے سے امریکی سفیر سیم براؤن بیک کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان سے متعلق استثنیٰ جاری کردیا ہے، جس کے باعث پاکستان کو باعث تشویش ممالک پر عائد معاشی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔
ایک نیوز کانفرنس کے دوران سیم براؤن بیک کا کہنا تھا کہ پاکستان کو استثنیٰ دینا امریکا کے اہم قومی مفاد میں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ نے سعودی عرب اور تاجکستان کے لیے بھی استثنیٰ جاری کیا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ امریکی استثنی پانے والے ملکوں پر جرمانہ عائد نہیں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان نے مذہبی آزادی کی پامالی کے امریکی الزام پر مبنی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے اسے 'یک طرفہ' اور 'سیاسی جانبداری' پر مشتمل قرار دیا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی ملک کے مشورے کی ضرورت نہیں، ایسے فیصلوں سے ’واضح امتیاز' ظاہر ہوتا ہے اور اس 'ناجائز عمل' میں شامل خودساختہ منصفین کی شفافیت پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کثیر المذہبی ملک اور کثرت پسندانہ معاشرہ ہے، جہاں مختلف عقائد اور فرقوں کے حامل لوگ رہتے ہیں، پاکستان کی آبادی کا 4 فیصد مسیحی، ہندو، بدھ اور سکھ عقائد سے تعلق رکھتا ہے۔
ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی حکومتوں نے اقلیتی مذاہب کے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کو فوقیت دی ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اقلتیوں کی عبادت گاہوں اور املاک کے تحفظ کے لیے کئی اہم فیصلے دیئے ہیں۔