پاکستان
Time 13 دسمبر ، 2018

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین شہباز شریف ہوں گے، حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق


اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر اتفاق ہوگیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے حوالے سے گزشتہ 3 ماہ سے حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک برقرار تھا اور حکومت نے بطور چیئرمین شہباز شریف کی نامزدگی کو مسترد کردیا تھا جب کہ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا تھا کہ شہبازشریف کو چیئرمین پی اے سے کسی صورت نہیں بنائیں گے۔

تاہم آج قومی اسمبلی اجلاس کے دوران حکومت نے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی نامزدگی کا اختیار دے دیا تھا۔

جس کے بعد حکومتی اور اپوزیشن وفد میں ملاقات ہوئی جس کے دوران اس بات پر اتفاق کرلیا گیا کہ شہباز شریف چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی ہوں گے۔

ن لیگ کے آڈٹ اعتراضات کیلئے خصوصی کمیٹی بنے گی

حکومتی وفد میں شامل وزیر دفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی کمیٹی بنےگی، جس کے سربراہ کا تعلق تحریک انصاف سے ہوگا۔

اس موقع پر ایک صحافی نے وزیر دفاع سے سوال کیا کہ 'وہ کون سی مجبوریاں تھیں کہ اپوزیشن کا مطالبہ ماننا پڑا؟' جس پر پرویز خٹک نے جواب دیا کہ 'مجبوریاں نہیں ہوتیں لیکن ایوان کو چلانا تھا'۔

پرویز خٹک نے مزید کہا کہ 'روایت تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کو چئیرمین پی اےسی مانا ہے'۔

قومی اسمبلی اجلاس کی کارروائی

اس سے قبل اسپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا تھا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے متعلق وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن ضد پر قائم ہے تو حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا، ہمیں اس معاملے کو ضد اور انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے آگے بڑھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کے موجودہ سربراہ نیب کیسز سے دو چار ہیں، انہیں جس پر اعتماد ہو اس کا نام لیں حکومت مان جائے گی، چیئرمین پی اے سی قائد حزب اختلاف کے علاوہ کسی اور کو بنانے کی بھی روایت ہے۔

نیب کا اس ایوان سے کوئی تعلق نہیں: شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ عوام کے لیے چار پانچ بہت اہم قوانین کو ایوان میں پیش کرنا چاہتے ہیں، قائمہ کمیٹیاں وجود میں آئیں گی تو پارلیمنٹ فنکشنل ہوگی، ایسا راستہ نکالا جائے کہ قائمہ کمیٹیاں بن سکیں جو جمہوریت کی ضرورت ہے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ نیب کا اس ایوان سے کوئی تعلق نہیں، یہ سوچ جمہوریت کے لیے نقصان دہ اور عوام کے مفاد میں نہیں، ہمیں تلخیاں بڑھانی نہیں کم کرنی ہیں۔

نیب اور پی ٹی آئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے: شہبازشریف

دوسری جانب قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود کی بات حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے، نیب اور پی ٹی آئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ احتساب کا عمل کس طرح اپوزیشن کے خلاف دن رات جاری ہے۔

شہباز شریف نے کہا متحدہ اپوزیشن نے چیئرمین پی اے سی کے لیے میرا نام تجویز کیا تھا، یہ ہٹ دھرمی نہیں بلکہ متحدہ اپوزیشن نے مجھے جو اعزاز دیا اسے آگے لے کر جانا تھا۔

آشیانہ اسکینڈل میں آدھے پیسے کی کرپشن بھی ثابت ہوگئی تو سیاست چھوڑ دوں گا: شہباز شریف

شہباز شریف نے کہا آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں آدھے پیسے کی کرپشن بھی ثابت ہوگئی تو سیاست چھوڑ دوں گا، ابھی تک تو میرے خلاف نیب کا ریفرنس داخل نہیں ہوا جو وہ ضرور کریں گے۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کی تحقیقات رواں برس جنوری میں شروع ہوئیں، میں نے کئی پیشیاں بھگتیں، پرویز خٹک کےخلاف مالم جبہ کے ریزورٹ کی تحقیقات بھی ساتھ شروع ہوئیں، لیکن کسی کو چیونٹی بھی نہیں کاٹی جب کہ عمران خان نیازی پر ہیلی کاپٹر کیس میں نیب کا سایہ دن رات منڈلاتا ہے۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کو چارٹر آف اکانومی کی تجویز دی تھی لیکن تحریک انصاف نے حقارت سے تجویز رد کردی تھی، اب یہ جاگے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مفاد میں ایک قدم آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔

کوئی زمین کسی کے نام پر منتقل نہیں ہوئی سیاسی کیس بنایا گیا ہے: پرویز خٹک

ایوان میں وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی اظہار خیال کیا اور شہباز شریف کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کوئی زمین کسی کے نام پر منتقل نہیں ہوئی، سیاسی کیس بنایا گیا ہے، اگر آپ ذاتیات پر بات کرنا چاہتے ہیں تو مجھے بھی پرسنل باتیں آتی ہیں مگر میں ایسا نہیں ہوں۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ پرویز خٹک اندر ہوجائے مگر جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے اس موقع پر کہا کہ کئی سال کی کشمکش اور تلخیوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچے اگر سیاست کرنی ہے تو ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، چارٹر آف ڈیمو کریسی کی اپنے اپنے مطلب کی تشریح کی جارہی ہے۔

مزید خبریں :