پاکستان میں اس سال کیا کیا 'وائرل' ہوا؟

رواں برس سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی چند تصاویر پر ایک نظر، جو آنے والے دنوں میں بھی کسی نہ کسی صورت موضوع گفتگو بنی رہیں گی۔

کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے، کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں وائرل تصاویر کا خاص طور پر چرچا ہے، جو شیئر ہونے کے بعد جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں اور پھر کئی دنوں تک دیکھنے والوں کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ یہ تاثر اچھا ہوتا ہے یا برا!

سال 2018 کا اختتام بس ہونے کو ہے، یہ برس بھی اپنے ساتھ بہت سی اچھی اور بری یادیں لیے جا رہا ہے۔ اس سال بھی پاکستان سے کچھ ایسی تصاویر سامنے آئیں، جنہوں نے دیکھنے والوں کو کسی نہ کسی حد تک متاثر کیا اور بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کیا۔

ذیل میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی چند ایسی ہی تصاویر پر ایک نظر ڈالی جارہی ہے، جو آنے والے دنوں میں بھی کسی نہ کسی صورت موضوع گفتگو بنی رہیں گی۔

موت کے بعد بھی زنجیروں سے نجات نہ ملی!

سرگودھا یونیورسٹی کے سی ای او میاں جاوید 21 دسمبر کو کیمپ جیل لاہور میں دوران حراست انتقال کرگئے تھے—۔فائل فوٹو

سرگودھا یونیورسٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) میاں جاوید کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے یونیورسٹی کے غیر قانونی کیمپسز کھولنے کے الزام میں رواں برس اکتوبر میں گرفتار کیا گیا تھا، وہ 21 دسمبر کو کیمپ جیل لاہور میں دوران حراست انتقال کرگئے تھے۔

وفات کے بعد میاں جاوید کی ہتھکڑیاں لگیں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس پر عوامی وسیاسی حلقوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔

تاہم اس واقعے کی ذمہ داری نیب، جیل اور اسپتال حکام ایک دوسرے پر ڈالتے نظر آئے۔

نیب اعلامیے کے مطابق میاں جاوید کی وفات جیل کسٹڈی میں سروسز اسپتال لاہور میں ہوئی، دوسری جانب جیل انتظامیہ کا کہنا تھا کہ میاں جاوید کو زندہ حالت میں اسپتال روانہ کیا گیا جبکہ سروسز اسپتال کی پولیس چوکی کے انچارج کے مطابق جس وقت میاں جاوید کو اسپتال لایا گیا، وہ وفات پاچکے تھے، جبکہ ہتھکڑیاں کھولنے کے لیے کافی دیر پولیس اہلکاروں کو ڈھونڈا گیا۔

اب کس کا موقف درست ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک یونیورسٹی کے عہدیدار کے ساتھ اس قسم کا سلوک اور وہ بھی وفات کے بعد، کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑ کر جارہا۔

جب اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگیں!

 پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران اور دیگر اساتذہ کو  ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے پر سوشل میڈیا پر کافی لے دے ہوئی تھی—۔فائل فوٹو

قومی احتساب بیورو (نیب) نے 11 اکتوبر کو پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کو مبینہ طور پر یونیورسٹی میں خلافِ ضابطہ بھرتیوں اور بے ضابطگیوں کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

مجاہد کامران کو دیگر اساتذہ سمیت اگلے روز ہتھکڑیاں لگا کر احتساب عدالت کے جج نجم الحسن کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

تاہم اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے پر سوشل میڈیا پر کافی لے دے ہوئی تھی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس بھی لیا۔

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران اور دیگر پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگانے پر ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور سلیم شہزاد کی خوب سرزنش کی، جس پر انہوں نے سپریم کورٹ سے معافی مانگ لی تھی۔

نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے، یہ تو پھر سڑک ہے!

مال روڈ کے کنارے سونے والے ایک خاندان کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر—۔فوٹو/ بشکریہ سوشل میڈیا

رواں برس نومبر میں لاہور میں مال روڈ کے کنارے سونے والے ایک خاندان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک شخص کو اپنے 3 بچوں سمیت ایک ہی کمبل میں سرد رات میں سڑک کنارے سوتے ہوئے دیکھا گیا۔

تصویر دیکھ کر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گِل نے اس خاندان کو تلاش کرنے میں مدد کی اپیل کی تھی تاکہ حکومت کی جانب سے مدد کی جاسکی۔

تاہم حکومت سے پہلے ہی لاہور کے ایک ریسٹورنٹ کے مالک نے سڑک کنارے سونے والی اس فیملی کو تلاش کرکے نہ صرف اس کی مالی مدد کی بلکہ بچوں کو اسکول میں بھی داخل کر وا دیا۔

اسی کے بعد حکومت بے گھر افراد کے لیے شیلٹر ہوم قائم کرنے کے لیے کوششوں میں تیزی لائی اور پشاور، لاہور اور اسلام آباد میں شیلٹر ہومز کھولے گئے۔

جب شیخ رشید نے تندور پر روٹیاں لگائیں!

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے ووٹرز کو متاثر کرنے کے لیے تندور پر روٹیاں لگائیں—۔فوٹو/ شیخ رشید ٹوئٹر اکاؤنٹ

عام انتخابات 2018 کی گہما گہمی کے دوران ہر سیاسی امیدوار نے ووٹ لینے کے لیے منفرد انداز اپنایا، ایسے میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے تندور پر روٹیاں لگا کر عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کی، جس کی تصویر سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔

راولپنڈی کے حلقوں این اے 60 اور 62 کے امیدوار شیخ رشید احمد جب سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایک تندور پر پہنچے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ 'آپ میرا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟'

جس پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے جواب دیا، ’آپ روٹی لینے آئے ہیں، آج آپ کے لیے خود روٹی لگاؤں گا‘۔

جس کے بعد شیخ رشید نے اپنے اور ووٹرز کے لیے تندور میں روٹیاں لگائیں اور اس موقع کی ویڈیو بھی ٹوئٹر پر شیئر کی۔

شیخ رشید نے اپنے اس نرالے انداز کو 'عوامی انداز' قرار دیا اور ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’عام لوگوں کے ساتھ ان ہی کی طرح رہنا ہمیشہ ہی پسند ہے‘۔

اے این ایف کی دبنگ خاتون اہلکار ایکشن میں!

اے این ایف آفیسر رفیعہ بیگ اور ان کی چند ساتھیوں نے پشاور میں جلائی گئی منشیات کے سامنے کھڑے ہوکر یہ تصویر لی—۔فوٹو/ بشکریہ  سوشل میڈیا

رواں برس اکتوبر میں اینی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کی چند خاتون اہلکاروں کی دبنگ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جو بالکل ہالی وڈ فلموں کے مناظر کی طرح معلوم ہوئیں۔

یہ تصاویر 23 اکتوبر کو پشاور میں 400 کلوگرام منشیات جلانے کی ایک تقریب کے دوران لی گئی تھیں۔

اے این ایف آفیسر رفیعہ بیگ اور ان کی چند ساتھیوں نے آگ کے شعلوں میں جلتی منشیات کے سامنے تصاویر لے کر انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا، جو 'پولیس عوام ساتھ ساتھ'  نامی ایک مہم  کا حصہ تھا۔

اے این ایف آفیسر رفیعہ بیگ اور ان کی ساتھی اہلکار سیلفی لیتے ہوئے—۔فوٹو/ بشکریہ سوشل میڈیا

یہ تصاویر شیئر ہوتے ہی سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں اور لوگوں نے ان خواتین افسران کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بہت سراہا۔

وفاقی وزیر شیریں مزاری کا دفتر میں آرام!

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی دفتر میں آرام کرتے ہوئے لی گئی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور ان پر کافی تنقید کی گئی—۔ فوٹو/ ٹوئٹر

رواں برس اگست میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان نے اپنے وزراء کو 'کام اور صرف کام' کی ہدایت کی تھی لیکن چند ہی ہفتوں پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور ان کا خوب مذاق اڑایا گیا۔

اس وائرل تصویر میں شیریں مزاری اپنے دفتر میں کرسی پر آرام کرتی نظر آئی تھیں۔

جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے وزیراعظم عمران خان سے شیریں مزاری کے خلاف ایکشن لینے کا بھی مطالبہ کر ڈالا۔

 بھارتی میڈیا کا 2 پاکستانی طالبعلموں کے خلاف پروپیگنڈا 

فیصل آباد کے مدرسہ امدادیہ کے دو طالب علموں نے قصور بارڈر پر سنگ میل کے پاس کھڑے ہو کر ایک تصویر بنائی جو وائرل ہوگئی اور بھارت میں اس پر خوب پروپیگنڈا کیا گیا—۔ فوٹو/ سوشل میڈیا

رواں برس نومبر میں فیصل آباد کے ایک مدرسے کے 2 طالبعلموں کی تصویر بھی وائرل ہوئی، جنہیں بھارتی سیکیورٹی اداروں اور میڈیا نے 'دہشت گرد' قرار دے کر دعویٰ کیا کہ وہ دارالحکومت نئی دہلی میں داخل ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب حقیقت میں فیصل آباد کے مدرسہ امدادیہ کے مذکورہ دونوں طالب علم رائے ونڈ کے اجتماع میں شرکت کے لیے گئے تھے اور وہاں سے قصور بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب دیکھنے چلے گئے، جہاں انہوں نے سنگ میل کے پاس کھڑے ہو کر تصویر بنائی جو وائرل ہوگئی۔

بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے کے بعد فیصل آباد میں قائم مدرسہ امدادیہ کے مہتمم نے دونوں طالب علموں کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔

'تربوز والا'

اس سال ایک 'تربوز والے' کی تصویر انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی، لیکن یہ نوجوان درحقیقت میڈیکل کا طالبعلم  نکلا—۔فوٹو/ سوشل میڈیا

اسلام آباد کا 'چائے والا' ارشد تو سب کو ہی یاد ہوگا؟ جس کی محض ایک تصویر نے وائرل ہوکر اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا، اس سال ایک 'تربوز والے' کی تصویر انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی۔

اس 'تربوز والے' کی تصویر رواں برس مئی کے آخر (رمضان المبارک) میں افطار سے قبل سوشل میڈیا پر کسی نے اَپ لوڈ کی اور بس پھر کیا تھا، لوگوں نے تو تعریفوں کے پُل ہی باندھ دیئے۔

لیکن بعدازاں اس حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آئیں کہ مبینہ طور پر محمد اویس نامی یہ نوجوان تربوز والا پھل فروش نہیں بلکہ کراچی کی ایک نجی میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کا طالبعلم ہے۔

سچائی جو بھی ہو، لیکن محمد اویس المعروف 'تربوز والا' سوشل میڈیا پر مشہور ضرور ہوگیا۔

تھر کی دھول مٹی سے بچنے کیلئے سرخ قالین کا سہارا!

گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے دورہ تھر کے موقع پر بچھایا گیا قالین—۔فوٹو/ سوشل میڈیا

رواں برس اکتوبر میں گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا درجنوں گاڑیوں کے قافلے میں تھر پہنچے لیکن جیسے ہی وہ اپنی قیمتی گاڑی سے اترے، ان کے مہنگے جوتوں کو دھول مٹی سے محفوظ رکھنے کے لیے وہاں سرخ قالین بچھا دیا گیا۔

اس تصویر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی حکمران جماعت پی ٹی آئی کو  خاص طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس نے اقتدار میں آتے ہی 'تبدیلی' اور 'وی آئی پی کلچر' کے خاتمے کا نعرہ لگایا تھا۔