02 جنوری ، 2019
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے گئے 172 افراد کے نام فوری طور پر فہرست سے نہ نکالنے اور اس معاملے کو ای سی ایل جائزہ کمیٹی کوبھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 31 دسمبر کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے وزیرمملکت برائے داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ ای سی ایل میں ڈالے گئے ناموں پر نظرثانی کی جائے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر کوئی نام وزارت داخلہ کے ذریعے آئے گا اسے ای سی ایل میں ڈالیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ای سی ایل میں ڈالے گئے ناموں کا جائزہ لیا جائے اس لیے کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ان 172 افراد کے ای سی ایل میں ڈالنے کا معاملہ جائزہ کمیٹی کو بھیجا جائے گا جو کہ ان سے متعلق سفارشات دے گی جن پر کابینہ اپنے آئندہ اجلاس میں زیرغور کرے گی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنا جہاز دیا جس میں وہ فرار ہوئے اور اب تک واپس نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ مجرم کو فرار کرانے پر شاہد خاقان عباسی کو نوٹس دیتی۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران ای سی ایل میں شامل کیے گئے 172 افراد کے ناموں کا جائزہ لیا گیا، اس موقع پر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور قانونی ماہرین کی جانب سے وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ کے دوران فواد چوہدری نے کراچی کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وفاق کراچی میں ترقی کے لیے اومنی گروپ پر بھروسا نہیں کرسکتا، 2 ہزار ارب روپے جو سندھ کے عوام پر لگنے تھے وہ دبئی اور لندن میں خرچ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گورنر سندھ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی ہے جس کی نگرانی میں وفاق کا پیسا کراچی سمیت سندھ بھر میں خرچ ہوگا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ دو ہزار ارب روپے محلات خریدنے اور پرائیوٹ جہازوں کے کرایوں پر خرچ ہوئے، آج وہ لوگ تحریک چلانے کی باتیں کررہے ہیں جو کمرشل فلائٹ پر لاہور سے کراچی نہیں آتے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اپنے کیسز پر توجہ دے، دھمکیاں نہ دے، پیپلزپارٹی کے چار پانچ لوگوں کو نہیں پتا کہ کیا ہوا باقی سندھ کے بچے بچے کو پتا ہے کہ پیسا کہاں خرچ ہوا۔