پاکستان

ايون فيلڈ ريفرنس: نوازشریف، مریم، کیپٹن صفدرکی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل خارج



اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ايون فيلڈ ريفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی سزا کالعدم قرار دینے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپيل خارج کردی۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے گذشتہ برس 6 جولائی کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال قید اور جرمانے، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال قید اور جرمانے جبکہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی، جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے 19 ستمبر کو معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔ 

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے نواز شريف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نيب نے سپريم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

گذشتہ سماعت پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی سزا معطلی کے فیصلے کو فقہ قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کیس میں پیدا ہونے والے اہم آئینی نکات کے پیش نظر لارجر بینچ بنانے کا حکم دیا تھا۔

چيف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آج کیس کی سماعت کی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار، جسٹس مشير عالم اور جسٹس مظہر عالم شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'ضمانت منسوخی کے قواعد کے بارے میں بتائیں، ضمانت منسوخی کے پیرامیٹر آپ جانتے ہیں، وہ کون سے پیرا میٹر ہیں، جن پر ضمانت خارج ہو سکتی ہے'۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ شواہد کےمطابق سزا بھی نہیں بنتی'۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ہائیکورٹ نے ضمانت دینے کا اپنا اختیار استعمال کیا'۔

نیب وکیل نے دلائل کے دوران کہا کہ 'سزا معطلی یا ضمانت کی درخواست میں کیس کے میرٹ پر نہیں جایا جاتا'۔

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ 'کس بنیاد پر ضمانت منسوخ کریں؟'

جس پر نیب وکیل نے جواب دیا کہ 'ہائیکورٹ نے نامساعد حالات کے بغیر ضمانت دے دی'۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ 'نیب کے راستے میں کیا مشکل ہے؟ جبکہ ضمانت کا حکم عبوری ہے'۔

جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ضمانت ہائیکورٹ دے چکی ہے اب کس بنیاد پر منسوخ کریں؟'

اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ 'نیب کا قانون خصوصی قانون ہے اور خصوصی حالات میں ضمانت ہو سکتی ہے'۔

تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ہو سکتا ہے ہائیکورٹ کا ضمانت دینے کا اصول غلط ہو'۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ 'ہائیکورٹ نے اپنی آبزرویشن کو خود عبوری نوعیت کی قرار دیا، ضمانت کی اپیل کا غلط استعمال ہو تو وجہ منسوخی بن سکتی ہے'۔

جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ 'ہائیکورٹ کا معطلی کا فیصلہ طویل ہے، فیصلہ مختصر بھی لکھا جا سکتا تھا'۔

انہوں نے مزید استفسار کیا کہ 'نواز شریف اس وقت آزاد شخص نہیں، جو شخص آزاد نہیں اس کی ضمانت کیوں منسوخ کرانا چاہتے ہیں؟'

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ 'ہائیکورٹ کا فیصلہ عارضی ہے، ہم اس میں مداخلت نہیں کر رہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نواز شریف نے ضمانت کا غلط استعمال نہیں کیا اور ٹرائل کورٹ میں مسلسل پیش ہوتے رہے'، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'بدقسمتی سے نواز شریف سلاخوں کے پیچھے ہیں'۔

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی۔

مزید خبریں :