29 جنوری ، 2019
اسلام آباد: سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ذیشان اور خلیل کے ورثا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے روبرو پیش ہو کر پھٹ پڑے، مقتول ذیشان کی والدہ نے کہا اگر ان کا بیٹا دہشت گرد تھا تو اسے زندہ کیوں نہیں پکڑا گیا۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس شروع ہوا تو سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے بھائی جلیل اور مقتول ذیشان کی والدہ زبیدہ بی بی پیش ہوئیں۔
اس موقع پر سانحہ ساہیوال میں جاں بحق افراد کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی جب کہ سیکرٹری کمیٹی نے سینیٹ میں پاس کی گئی رولنگ پڑھ کر سنائی اور رحمان ملک نے پنجابی زبان میں رولنگ کا ترجمہ کر کے لواحقین کو سنایا۔
اجلاس کے دوران مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے تحریری طور واقعے کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں جب کہ ذیشان کی والدہ نے کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا ہمارا واحد سہارا تھا، اگر انہوں نے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا تھا تو اسے زندہ پکڑتے، بھارتی جاسوس کو زندہ پکڑا میرے بیٹے کو زندہ کیوں نہیں پکڑا۔
ذیشان کی والدہ زبیدہ بی بی نے کہا یہ حکومتی وزیر کھڑے ہو کر میرے بیٹے کو دہشت گرد کہتے ہیں کیا انہیں بات کرنے کی تمیز نہیں۔
ذیشان کے بھائی احتشام نے کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے کہا میرے بھائی کے خلاف پورے پاکستان میں کوئی ایف آئی آر ہے اور نہ کوئی درخواست موجود ہے، میں نے ڈولفن فورس میں بھرتی کے لئے درخواست دی تھی اور والد کی بجائے بھائی ذیشان کے شناختی کارڈ کی کاپی لگائی۔
احتشام نے بتایا کہ سب نے سیکیورٹی کلئیرنس دی اور مجھے نوکری ملی، ساہیوال واقعے میں ایک تو ہمارے گھر کا سربراہ چھین لیا گیا دوسرا اس پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگا دیا۔
احتشام نے سوال اٹھایا کہ میرا بھائی کیسا دہشت گرد تھا جس کو مارنے کے بعد اس کے خلاف ثبوت بنائے یا اکٹھے کیے جارہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی رحمان ملک نے کہا کہ واقعے کے 6 گھنٹے بعد ہی کمیٹی نے اس معاملے کا نوٹس لیا جب کہ سینیٹر جاوید عباسی نے سینیٹ کے ایوان میں ایک قرارداد بھی پیش کی تھی، ہم یہاں پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر بیٹھے ہیں۔
سینیٹر رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ہم یہ تحقیقات آپ کے خاندان کے رکن کے طور پر کررہے ہیں، انصاف ایسے ہی ملتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اس سارے کیس میں پولیس ملوث ہے، انہیں کسی دہشت گرد نے نہیں مارا، ہم پولیس کی کسی تحقیقات کو نہیں مانتے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کو مارنے والے ہی ان کی تحقیقات کریں۔
سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ پولیس سے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات واپس لی جائیں، آج بھی جے آئی ٹی کام کررہی ہے وہ کس قانون کے تحت کام کررہی ہے، جب کمیٹی اور سینیٹ نےپولیس تحقیقات مسترد کردیں تو یہ کیسے کام کررہے ہیں۔
سینیٹر جاوید عباسی نے مطالبہ کیا کہ فوری طور ہر اس معاملے پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر جاوید عباسی اور سینیٹر اعظم سواتی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، سینیٹر جاوید عباسی نے کہا ساہیوال واقعے پر حکومت نے پانچ مرتبہ موقف بدلا، ان کے اس بیان پر سینیٹر اعظم سواتی ناراض ہوگئے اور کہا کہ اس معاملے میں حکومت کا نام کیوں لیا گیا۔
جس پر سینیٹر جاوید عباسی نے کہا سانحہ ساہیوال میں حکومت ملوث ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد روانگی کے موقع پر سی ٹی ڈی کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے ذیشان کی والدہ زبیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ انصاف کی امید لے کراسلام آباد جارہے ہیں، پچھلی دفعہ ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ مسترد کرتے ہیں، دھمکیوں سے متعلق ہمارے وکیل کا دعویٰ خود ساختہ تھا اور اس وجہ سے وکیل تبدیل کر دیا ہے۔
سانحہ ساہیوال میں مارے گئے افراد کی پوسٹ مارٹم اور زخمیوں کی میڈیکل رپورٹ بھی جیو نیوز کو موصول ہوگئی جس نے پولیس کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق زخمی ہونے والی 6 سالہ منیبہ کے ہاتھ میں شیشہ نہیں بلکہ گولی لگی تھی جو اس کے دائیں ہاتھ میں سامنے سے لگی اور پار ہوگئی۔
زخمی بچوں کی میڈیکل رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ واقعے میں زخمی ہونے والے ننھے عمیر کو لگنے والی گولی داہنی ران کو چیرتی ہوئی دوسری جانب سے نکل گئی۔
یاد رہے کہ 19 جنوری کی سہہ پہر سی ٹی ڈی نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک کار پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اس میں سوار 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوگئے۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا جب کہ بعد ازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔