Time 20 فروری ، 2019
پاکستان

بلیو اکانومی: بحری خزانے پاکستان کی معیشت کو کہاں پہنچا سکتے ہیں؟

— فوٹو طارق معین صدیقی

کراچی: پاکستان ان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جو دنیا کے ممالک اپنے لئے خواب سمجھتے ہیں۔ زمین اور سمندر کے خزانوں سے مالا مال خطے میں اہم ترین جغرافیائی پوزیشن کا حامل "پاکستان" عالمی نقشے پر ایک معاشی اورجغرافیائی اکائی کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔

پاک چین معاشی راہداری (سی پیک) اور خطے میں بڑھتی بحری معاشی، تجارتی اور دفاعی سرگرمیوں کی وجہ سے مضبوط "میری ٹائم پالیسی" کی اہمیت زور پکڑرہی ہے۔

گزشتہ دنوں میری ٹائم میں مواقعوں اور درپیش چیلنجز کے حوالے سے ایک کانفرنس میں بحری تجارت، دفاع، بین الاقوامی اور معاشی امور کے ماہرین نے خطے میں جغرافیائی تناظر میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر پالیسی ساز اداروں کو اپنی مضبوط میری ٹائم پالیسی کے اجراء پر زور دیا۔

کانفرنس میں عالمی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ بحرہند دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے اور معروف امریکی ماہر بحری امور الفریڈ ٹی ماہن نے اس کے حوالے لکھا ہے کہ" جو بھی بحر ہند پر کنٹرول حاصل کرے گا وہ ایشیا میں بااثر ترین ہوگا کیوں کہ بحرہند اس راہداری سے منسلک سات سمندروں کی چابی ہے"۔

یاد رہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) دُنیا میں جاری اس وقت سب سے بڑا اقتصادی و ترقیاتی منصوبہ ہے جس کی ابتدائی مالیت 46 ارب ڈالر ہے جو مزید بڑھ کر 62 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔

اسی منصوبے کا مرکز بلوچستان میں گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر ہے جسے اس وقت مزید وسعت دی جا رہی ہے اور اسے سی پیک کے تحت زمینی راستے سے چین سے ملایا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کا کانفرنس میں کہنا ہے کہ "پاک چین اکنامک کوریڈور (سی پیک) کی تکمیل کے بعد پاکستان خطے میں معیشت کا مرکز اور مضبوط بحری قوت بن جائے گا"۔

انہوں نے کہا کہ چین کی بحرہ ہند میں بڑھتی معاشی اور دفاعی قوت خطے میں تبدیلی کا مظہر ہے۔

پاکستان اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے گوادر بندرگاہ کی جغرافیائی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک اس کا حصہ بننے کے خواہاں ہیں اور حال ہی میں سعودی عرب تیسرے فریق کی حیثیت سے اس کا حصہ بنا اور اس نے گوادر میں ایک بڑی آئل ریفائنری لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

سی پیک کے مکمل ہوتے ہی پاکستان نہ صرف چین بلکہ وسطی ایشیا اور روس کے لیے خلیج اور افریقا سے رابطوں کا آسان ترین راستہ بن جائے گا۔ اسی وجہ پاکستان بحرہند میں 'بلیو اکانومی' کا بھی حب بن جائے گا۔

بحریہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد کہتے ہیں کہ معاشی جغرافیہ دیکھیں تو پاکستان خطے میں اہم ترین ملک ہے، مشرق وسطی، وسطی ایشیا، افریقا، جنوبی اورمشرقی ایشیاء کو افغانستان اور روس سے جوڑنے والی اہم راہداری پاکستان ہے۔

کانفرنس میں شریک کموڈور عبیداللہ نے بلیو اکانومی میں پاکستان کی اہمیت اور مواقعوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پاکستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت سے استفادہ کرنے کے لئے میری ٹائم نیشن بننا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلیو اکانومی سے ملکی معیشت کوبے حد فائدہ پہنچے گا، اس کے لئے حکومت کو بلا تاخیر میری ٹائم پالیسی منظور کرکے اس پر عمل درآمد کرانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی تجارت کا اسی فیصد حصہ سمندر کے راستے ہوتا ہے، پاکستان ایک ہزار کلومیٹر ساحلی پٹی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور بحری تجارت، نقل وحمل ، توانائی، غذائی پیدوار اور سیاحت کے شعبوں سے معاشی نمو میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

کموڈور عبید اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی جہاز رانی کے شعبے کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اس وقت صرف 9 جہاز ہیں اور پاکستان 4 سے 5 ارب ڈالر سالانہ ایندھن اور سامان کی ترسیل کی مد میں غیرملکی جہازوں کو ادا کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان شپنگ کارپوریشن صرف ساڑھے 12 فیصد سامان کی ترسیل کرسکتا ہے۔ 55 فیصد سازوسامان، ایل این جی، تیل اور85 فیصد خشک سامان غیرملکی جہازوں سے منگوایا جاتا ہے اس لیے اپنے جہازوں کے فلیٹ میں توسیع کرکے ایک خطیر زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔

بحری معیشت کا حجم ایک اعشاریہ 5 ٹریلین ڈالر ہے اور دنیا بھر میں 35 کروڑ افراد فشریز کے شعبے سے روزگار حاصل کررہے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق سال 2025 تک 34 فیصد کروڈ آئل سمندر سے حاصل ہو گا۔

انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افئیرز کے کموڈور بابر بلال نے شرکاء کو بتایا کہ بحری خزانے معیشت کو بلندی پر لے جانے کے منتظر ہیں، بلیو اکانومی سے استفادہ کرنے کے لئے ساحلی پٹی پرترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرکے سیاحت کے شعبے میں کومزید فروغ دینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یوریشیا، جنوبی ایشیا، چین، روس، افریقا اور مشرق وسطی کا نیا معاشی انضمام خطے میں دیرپا امن کو مضبوط بنائے گا۔

سی پیک کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاک چین اکنامک کوریڈور کی تجارتی سرگرمیاں، سیاحت، ہوٹل، ریزورٹس، صحت، تعلیم ، تعمیرات اور صنعت کے شعبے کی طلب بڑھائیں گی جس کے حوالے سے ہمیں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میری ٹائم کے شعبے میں درست سمت میں بہتر اقدامات کرکے زیادہ فوائد حاصل کرسکتا ہے۔

مزید خبریں :